سورة الأنبياء - آیت 24

أَمِ اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ آلِهَةً ۖ قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ ۖ هَٰذَا ذِكْرُ مَن مَّعِيَ وَذِكْرُ مَن قَبْلِي ۗ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ الْحَقَّ ۖ فَهُم مُّعْرِضُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

یا انھوں نے اس کے سوا کوئی معبود بنا لیے ہیں؟ کہہ دے لاؤ اپنی دلیل۔ یہی ان کی نصیحت ہے جو میرے ساتھ ہیں اور ان کی بھی جو مجھ سے پہلے تھے، بلکہ ان کے اکثر حق کو نہیں جانتے، سو وہ منہ پھیرنے والے ہیں۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

پھر اللہ تعالیٰ مشرکین کے احوال کی تحقیر کی طرف لوٹتے ہوئے فرماتا ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے سوا بہت سے معبود بنا لئے ہیں، لہٰذا ان کو زجر و توبیخ کرتے ہوئے کہو ﴿أَمِ اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ آلِهَةً ۖ قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْبھانکم﴾ یعنی اپنے موقف کی صحت پر حجت اور دلیل لاؤ مگر وہ کبھی دلیل نہ لا سکیں گے بلکہ اس کے برعکس ان کے اس موقف کے بطلان پر قطعی دلائل دلالت کرتے ہیں، اس لئے فرمایا ﴿ هَـٰذَا ذِكْرُ مَن مَّعِيَ وَذِكْرُ مَن قَبْلِ﴾ یعنی تمام آسمانی کتابیں اور شریعتیں، ابطال شرک کے بارے میں میرے موقف کی صحبت پر متفق ہیں۔ یہ اللہ کی کتاب ہے جس میں عقلی اور نقلی دلائل کے ساتھ ہر چیز کا ذکر موجود ہے اور یہ سابقہ تمام کتب ہیں، یہ بھی میرے موقف پر واضح دلیل اور برہان ہیں اور چونکہ یہ حقیقت معلوم ہے کہ ان کے موقف کے بطلان پر حجت و برہان قائم ہوگئی اس لئے صاف ظاہر ہوگیا کہ ان کے پاس کوئی نہیں دلیل نہیں کیونکہ دلیل و برہان قطعی طور پر فیصلہ کردیتی ہے کہ اس کا کوئی معارض نہیں۔ اگر بظاہر کچھ معارضات موجود ہوں تو یہ محض شبہات ہیں اور جو حق کے مقابلے میں کسی کام نہیں آسکتے۔ ﴿ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ﴾ یعنی وہ اپنے اسلاف کی تقلید کی بنا پر اپنے باطل موقف پر قائم ہیں اور بغیر کسی علم اور ہدایت کے جھگڑا کرتے ہیں۔ ان کا حق کے علم سے محروم ہونے کا باعث یہ نہیں کہ حق مخفی ہے بلکہ اس محرومی کا سبب ان کی حق سے روگردانی ہے، ورنہ اگر انہوں نے حق کی طرف ادنیٰ سا التفات بھی کیا ہوتا تو حق ان پر روز روشن کی طرح واضح ہوجاتا، اس لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ﴿ فَهُم مُّعْرِضُونَ﴾ پس وہ اعراض کرنے والے ہیں۔