لَقَدْ أَنزَلْنَا إِلَيْكُمْ كِتَابًا فِيهِ ذِكْرُكُمْ ۖ أَفَلَا تَعْقِلُونَ
بلاشبہ یقیناً ہم نے تمھاری طرف ایک کتاب نازل کی ہے، جس میں تمھارا ذکر ہے، تو کیا تم نہیں سمجھتے؟
اے وہ لوگو ! جن کی طرف محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رسول بنا کر بھیجا گیا ہے، ہم نے تمہاری طرف ایک جلیل القدر کتاب اور ایک واضح قرآن نازل کیا ﴿ فِيهِ ذِكْرُكُمْ﴾ یعنی جو کچھ اس میں سچی باتیں بیان کی گئیں ہیں اگر تم اس سے نصیحت پکڑو، انہیں اپنا اعتقاد بناؤ اس کے احکام کی تعمیل کرو اور اس کے نواہی سے اجتناب کرو تو اس میں تمہارا شرف و فخر اور تمہاری سر بلندی ہے، تمہاری قدر بڑھے گی اور تمہارا معاملہ عظیم ہوجائے گا۔ ﴿اأَفَلَا تَعْقِلُونَ﴾ کیا تم ان معاملات کو نہیں سمجھ سکتے جن میں تمہارا نفع و نقصان ہے؟ تم اس چیز پر کیوں عمل پیرا نہیں ہوتے جس میں تمہارا ذکر اور جس میں تمہارے لئے دنیا و آخرت کا شرف ہے ؟ اگر تم میں عقل ہوتی تو تم اسی راستے پر گامزن ہوتے۔ چونکہ تم اس راستے پر نہیں چلے بلکہ تم نے کوئی دوسرا راستہ اختیار کرلیا ہے جس میں تمہارے لئے دنیا و آخرت کی ذلت اور تحقیر ہے اور جس کی منزل تمہارے لئے دنیا و آخرت کی بد بختی ہے، اس لئے معلوم ہوا کہ تم صحیح معقولات اور راجح آراء سے تہی دامن ہو، جو کچھ واقع ہوا یہ آیت کریمہ اس کا مصداق ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے والے صحابہ کرام اور بعد میں آنے والے اہل ایمان نے اس قرآن سے نصیحت پکڑی تو انہیں غلبہ، سر بلندی، عظیم شہرت اور بادشاہوں پر سرداری حاصل ہوئی اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے ہر شخص جانتا ہے جیسے اس شخص کے بارے میں معلوم ہے جس نے اس قرآن کے ذریعے سے سر بلندی حاصل نہیں کی، اس کی راہنمائی قبول نہیں کی اور اس کے ذریعے اپنے آپ کو پاک نہ کیا، اس کے نصیب میں اللہ تعالیٰ کی ناراضی، ذلت و رسوائی، گمنامی اور بد بختی ہے۔ پس دنیا و آخرت کی سعادت تک رسائی صرف اس کتاب عظیم کے ذریعے نصیحت پکڑنے ہی سے حاصل ہوسکتی ہے۔