سورة الأنبياء - آیت 7

وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ إِلَّا رِجَالًا نُّوحِي إِلَيْهِمْ ۖ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور ہم نے تجھ سے پہلے نہیں بھیجے مگر کچھ مرد، جن کی طرف ہم وحی کرتے تھے، پس ذکر والوں سے پوچھ لو، اگر تم نہیں جانتے ہو۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

یہ رسولوں کو جھٹلانے والوں کے شبہ کا جواب ہے جو یہ کہتے تھے۔ ” کوئی فرشتہ کیوں نہیں بھیجا گیا جو کھانے پینے اور بازاروں میں گھومنے پھرنے کا محتاج نہ ہوتا؟ کوئی ایسا رسول کیوں نہ بھیجا گیا جسے دائمی زندگی عطا کی گئی ہوتی؟ جب ایسا نہیں ہے تو معلوم ہوا کہ وہ رسول نہیں ہے۔“ یہ شبہ انبیاء و رسل کو جھٹلانے والوں کے دلوں میں ہمیشہ ہے۔ چونکہ اہل تکذیب کفر میں ایک دوسرے سے مشابہت رکھتے ہیں اس لئے ان کے نظریات بھی ایک دوسرے سے مشابہ ہیں۔ پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کفار کو۔۔۔ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تو جھٹلاتے ہیں اور گزشتہ رسولوں کی رسالت کا اقرار کرتے ہیں اگرچہ صرف حضرت ابراہیم علیہ السلام ہی نبی ہوتے جن کی نبوت کا تمام گروہ اقرار کرتے ہیں، بلکہ مشرکین تو دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ان کی ملت پر ہیں۔۔۔ ان کے شبہ کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے بھی تمام رسول بشر ہی تھے، جو کھانا کھاتے تھے، بازاروں میں چلتے پھرتے تھے، ان پر موت وغیرہ اور تمام بشری عوارض طاری ہوتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کی قوموں اور امتوں میں مبعوث فرمایا ان قوموں میں سے کسی نے ان کی تصدیق کی اور کسی نے ان کو جھٹلایا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں اور ان کے متبعین سے نجات اور سعادت کا جو وعدہ کیا تھا اس نے پورا کردیا اور اس نے حد سے بڑھنے والے اہل تکذیب کو ہلاک کر ڈالا، تو محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ یہ کیا معاملہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کے انکار کے لئے باطل شبہات قائم کئے جاتے ہیں، حالانکہ یہی شبہات دیگر انبیاء و مرسلین پر بھی وارد ہوتے ہیں جن کی رسالت کا یہ لوگ اقرار کرتے ہیں جو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکذیب کرتے ہیں۔۔۔ پس ان پر یہ الزامی جواب بالکل واضح ہے۔ اگر انہوں نے کسی بشر رسول کا اقرار کیا ہے تو وہ کسی غیر بشر رسول کا اقرار ہرگز نہیں کریں گے تب ان کے شبہات باطل ہیں انہوں نے ان شبہات کے فساد اور اپنے تناقض کا اقرار کر کے خود ان شبہات کا ابطال کرلیا ہے۔ اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ یہ لوگ سرے ہی سے کسی بشر کے نبی ہونے کے منکر ہیں اور اس بات کے قائل ہیں کہ صرف دائمی زندگی رکھنے والا فرشتہ ہی نبی ہوسکتا ہے جو کھانا نہیں کھاتا تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کے اس کے اس شبہ کا جواب دیتے ہوئے فرمایا : ﴿وَقَالُوا لَوْلَا أُنزِلَ عَلَيْهِ مَلَكٌ وَلَوْ أَنزَلْنَا مَلَكًا لَّقُضِيَ الْأَمْرُ ثُمَّ لَا يُنظَرُونَ وَلَوْ جَعَلْنَاهُ مَلَكًا لَّجَعَلْنَاهُ رَجُلًا وَلَلَبَسْنَا عَلَيْهِم مَّا يَلْبِسُونَ ﴾(الانعام 6؍8، 9) ” اور وہ کہتے ہیں کہ اس پر کوئی فرشتہ کیوں نہیں اتارا گیا، اگر ہم نے فرشتہ اتارا ہوا ہوتا تو تمام معاملے کا فیصلہ ہوگیا ہوتا، پھر ان کو ڈھیل نہ دی جاتی اور اگر ہم نے اس کو فرشتہ بنایا ہوتا تو تب بھی اس کو بشر ہی بنایا ہوتا اور )اس طرح) ہم معاملہ ان پر مشتبہ کردیتے جسے اب وہ اشتباہ پیش کر رہے ہیں۔ “ انسان فرشتوں سے وحی اخذ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ ارشاد فرمایا : ﴿قُل لَّوْ كَانَ فِي الْأَرْضِ مَلَائِكَةٌ يَمْشُونَ مُطْمَئِنِّينَ لَنَزَّلْنَا عَلَيْهِم مِّنَ السَّمَاءِ مَلَكًا رَّسُولًا ﴾ (بنی اسرائیل : 17؍95) ” کہہ دیجئے کہ اگر زمین میں فرشتے ہوتے اور اطمینان سے چل پھر رہے ہوتے تو ہم ان کے پاس کسی فرشتے ہی کو رسول بنا کر بھیجتے۔“ اگر گزشتہ رسولوں کے بارے میں تمہیں کوئی شک ہے یا ان کے احوال کا علم نہیں ﴿ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ﴾ ”تو تم اہل ذکر سے پوچھ لو۔“ یعنی کتب سابقہ رکھنے والوں سے پوچھ لو، مثلاً اہل تورات اور اہل انجیل وغیرہ، ان کے پاس جو علم ہے وہ اس کے مطابق تمہیں بتائیں گے کہ گزشتہ تمام رسول انسان تھے جیسے یہ انسان ہیں۔ اس آیت کریمہ کا سبب نزول انبیائے مقتدمین کے بارے میں اہل کتاب سے سوال کرنے سے مختص ہے، کیونکہ وہ اس بارے میں علم رکھتے تھے۔۔۔ مگر یہ دین کے اصول وفروع کے تمام مسائل کے لئے عام ہے۔ جب انسان کے پاس ان مسائل کا علم نہ ہو تو وہ اس شخص سے پوچھ لے جو اس کا علم رکھتا ہے، نیز اس آیت کریمہ میں علم حاصل کرنے اور اہل علم سے سوال کرنے کا حکم ہے اور اہل علم سے سوال کرنے کا اس لئے حکم دیا گیا کہ اہل علم پر تعلیم دینا اور اپنے علم کے مطابق جواب دینافرض ہے۔ اہل علم اور اہل ذکر سے سوال کرنے کی تخصیص سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ جو شخص جہالت اور عدم علم میں معروف ہو اس سے سوال کرنے کی ممانعت ہے اور اس شخص کے لئے بھی جواب دینے کے درپے ہونا ممنوع ہے۔ اس آیت میں اس امر پر دلیل ہے کہ عورتیں نبی نہیں ہوئیں، حضرت مریم علیہا السلام نبی تھیں نہ کوئی اور عورت کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿ إِلَّا رِجَالًا﴾ یعنی ہم نے صرف مرد ہی نبی بنا کر بھیجے۔