قُلْ كُلٌّ مُّتَرَبِّصٌ فَتَرَبَّصُوا ۖ فَسَتَعْلَمُونَ مَنْ أَصْحَابُ الصِّرَاطِ السَّوِيِّ وَمَنِ اهْتَدَىٰ
کہہ دے ہر ایک منتظر ہے، سو تم انتظار کرو، پھر تم جلد ہی جان لو گے کہ سیدھے راستے والے کون ہیں اور کون ہے جس نے ہدایت پائی۔
اے محمد ! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان لوگوں سے کہہ دیجئے جو آپ کی تکذیب کرتے ہوئے کہتے ہیں ” اس کے بارے میں گردش زمانہ کا انتظار کرو“ ﴿قُلْ كُلٌّ مُّتَرَبِّصٌ﴾ ” کہہ دیجئے ! ہم میں سے ہر ایک منتظر ہے“۔ تم میری موت کا انتظار کرو میں تم پر عذاب الٰہی کے ٹوٹ پڑنے کا انتظار کرتا ہوں۔ ﴿قُلْ هَلْ تَرَبَّصُونَ بِنَا إِلَّا إِحْدَى الْحُسْنَيَيْنِ﴾ (التوبۃ: 9؍52) ” کہہ دیجئے کہ تم ہمارے بارے میں بس دو بھلائیوں میں سے ایک کے منتظر ہو“ یعنی کامیابی یا شہادت ﴿وَنَحْنُ نَتَرَبَّصُ بِكُمْ أَن يُصِيبَكُمُ اللّٰـهُ بِعَذَابٍ مِّنْ عِندِهِ أَوْ بِأَيْدِينَا ۖ﴾ (التوبۃ : 9؍52) ” اور ہم اس بات کے منتظر ہیں کہ اللہ تعالیٰ تم پر اپنی طرف سے کوئی عذاب بھیجے یا ہمارے ہاتھوں تمہیں کوئی سزا دے“۔ ﴿فَتَرَبَّصُوا فَسَتَعْلَمُونَ مَنْ أَصْحَابُ الصِّرَاطِ السَّوِيِّ﴾ ” پس تم انتظار کرو جلد ہی تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ سیدھے راستے (یعنی صراط مستقیم) والے کون ہیں؟“ ﴿ وَمَنِ اهْتَدَىٰ﴾ ” اور کون ہدایت یافتہ ہے؟“ یعنی اپنے طرز عمل کے اعتبار سے، میں یا تم؟ کیونکہ اس راستے پر چلنے والا شخص ہی صاحب رشد و ہدایت، فوزوفلاح سے بہرہ ور اور نجات یافتہ ہے اور جو کوئی اس راستے سے منہ موڑتا ہے وہ خائب و خاسر اور عذاب کا مستحق ہے اور یہ حقیقت واضح طور پر معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صراط مستقیم پر گامزن ہیں اور آپ کے دشمن اس کے برعکس راستوں پر چل رہے ہیں۔ واللہ اعلم۔