وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا ۖ لَا نَسْأَلُكَ رِزْقًا ۖ نَّحْنُ نَرْزُقُكَ ۗ وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوَىٰ
اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دے اور اس پر خوب پابند رہ، ہم تجھ سے کسی رزق کا مطالبہ نہیں کرتے، ہم ہی تجھے رزق دیں گے اور اچھا انجام تقویٰ کا ہے۔
اپنے گھر والوں کو نماز کی ترغیب دیجئے، انہیں فرض اور نفل نماز پڑھنے کا حکم دیتے رہیے اور کسی چیز کا حکم دینا ان تمام امور کو شامل ہے جن کے بغیر كسی چیز کی تکمیل نہیں ہوتی۔ پس یہ حکم، اپنے گھر والوں کو نماز کے بارے میں ان امور کی تعلیم دینا ہے جو نماز کی اصلاح کرتے ہیں، جو نماز کو فاسد کرتے ہیں اور جو نماز کی تکمیل کرتے ہیں۔ ﴿وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا﴾ ” اور خود بھی اس پر جمے رہیے۔“ یعنی نماز پر، اس کی تمام حدود، اس کے ارکان، اس کے آداب اور اس کے خشوع و خضوع کے ساتھ۔ کیونکہ اس میں نفس کے لئے مشقت ہے۔ تاہم مناسب یہی ہے کہ دائمی طور پر نفس کو نماز پڑھنے پر مجبور اور اس کے ساتھ جہاد کرتے رہنا چاہیے اور اس پر صبر کرنا چاہیے کیونکہ بندۂ مومن جب اس طریقے سے نماز قائم کرتا ہے جس طریقے سے قیام کرنے کا اسے حکم دیا گیا ہے تو نماز کے علاوہ دیگر دین کی حفاظت کرنے اور اس کو قائم کرنے کی اس سے زیادہ توقع کی جاسکتی ہے۔ اگر وہ نماز کو ضائع کرتا ہے تو دیگر دین کو زیادہ برے طریقے سے ضائع کرے گا۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رزق کی ضمانت دی اور ترغیب دی کہ آپ اقامت دین کو چھوڑ کر حصول رزق میں مشغول نہ ہوں۔ چنانچہ فرمایا : ﴿نَّحْنُ نَرْزُقُكَ﴾ یعنی آپ کا رزق ہمارے ذمہ ہے ہم نے جس طرح تمام خلائق کے رزق کی کفالت اپنے ذمہ لی ہے اسی طرح آپ کے رزق کی کفالت بھی ہمارے ذمہ ہے۔ اس شخص کے رزق کی ذمہ داری ہم پر کیسے نہ ہو جو ہمارے حکم کی تعمیل کرتا ہے اور ہمارے ذکر میں مشغول رہتا ہے؟ اللہ تعالیٰ کا رزق متقی اور غیر متقی سب کے لئے عام ہے، اس لئے ان امور کا اہتمام کرنا چاہیے جن پر ابدی سعادت کا دارومدار ہے اور وہ ہے تقویٰ، لہٰذا فرمایا : ﴿وَالْعَاقِبَةُ﴾ یعنی دنیا و آخرت کا انجام ﴿لِلتَّقْوَىٰ ﴾ تقویٰ کے لئے ہے اور تقویٰ سے مراد ہے مامورات کی تعمیل اور منہیات سے اجتناب اور جو کوئی ان کو قائم کرتا ہے، انجام اسی کا اچھا ہے جیسا کہ فرمایا : ﴿ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ﴾ (الاعراف : 7؍128) ” اور اچھا انجام متقین کا ہے“۔