قَالَ اهْبِطَا مِنْهَا جَمِيعًا ۖ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ۖ فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدًى فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَىٰ
فرمایا تم دونوں اکٹھے اس سے اتر جاؤ، تم میں سے بعض بعض کا دشمن ہے، پھر اگر کبھی واقعی تمھارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت آئے تو جو میری ہدایت کے پیچھے چلا تو نہ وہ گمراہ ہوگا اور نہ مصیبت میں پڑے گا۔
اللہ تبارک وتعالیٰ خبردیتاہے کہ اس نے آدم علیہ السلام اورابلیس کوحکم دیا کہ وہ زمین پراترجائیں ،آدم اور ان کی اولاد شیطان کو اپنادشمن سمجھیں اور ا س سے بچیں اس کا مقابلہ کرنےا ور جنگ کےلیے تیار رہیں ۔اللہ تعالیٰ ان پر کتابیں نازل کرے گا ان کی طرف رسول بھیجے گاجوان کےسامنے صراط مستقیم کوواضح کریں گے جوان کو اللہ تعالیٰ اور ا س کی جنت تک پہنچاتا ہے،نیز وہ ان کو ان کے دشمن سے متنبہ اور چوکنا کریں گے، لہٰذا ان کے پاس جس وقت بھی یہ ہدایت آجائے یعنی کتاب اور انبیاء المرسلین ۔۔۔پس اگر کسی نے اس کتاب کی اتباع کی، ان امور پرعمل کیاجن کا اس نے حکم دیااور ان امور سے اجتناب کیا جن سے اس نے منع کیاتوایسا شخص دنیا میں گمراہ ہوگا نہ آخرت میں اور نہ وہ دنیا وآخرت میں تکلیف میں پڑے گا بلکہ دونوں جہاں میں ان کی سیدھی راہ کی طرف راہنمائی کی جائے گی اور آخرت میں ان کوامن اور سعادت سے نوازاجائے گا۔ا یک اور آیت کریمہ میں واردہے کہ آخرت میں حزن وخوف ان سے دوررہےگا۔ ﴿ فَمَن تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ﴾(البقرۃ:2؍38)”پس جس کسی نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کےلیے کوئی خوف ہوگا نہ وہ غمزدہ ہوں گے۔“اور”ہدایت“کی پیروی یہ ہے کہ رسول کی دی ہوئی خبر کی تصدیق کی جائے،شبہات کےذریعے سے اس کے ساتھ معارضہ نہ کیاجائے،اس کےحکم کی اس طرح تعمیل کی جائے کہ کسی قسم کی خواہش اس کی معارض نہ ہو۔