يَوْمَئِذٍ يَتَّبِعُونَ الدَّاعِيَ لَا عِوَجَ لَهُ ۖ وَخَشَعَتِ الْأَصْوَاتُ لِلرَّحْمَٰنِ فَلَا تَسْمَعُ إِلَّا هَمْسًا
اس دن وہ پکارنے والے کے پیچھے چلے آئیں گے، جس کے لیے کوئی کجی نہ ہوگی اور سب آوازیں رحمان کے لیے پست ہوجائیں گی، سو تو ایک نہایت آہستہ آواز کے سوا کچھ نہیں سنے گا۔
اس لئے فرمایا : ﴿يَوْمَئِذٍ يَتَّبِعُونَ الدَّاعِيَ﴾ ” اس دن وہ پکارنے والے کے پیچھے لگیں گے۔ اور یہ اس وقت ہوگا جب وہ دوبارہ زندہ ہو کر قبروں سے کھڑے ہوں گے اور پکارنے والا ان کو اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہونے اور ایک جگہ جمع ہونے کے لئے پکارے گا تو وہ تیزی سے دوڑتے ہوئے اس کی طرف جائیں گے اور دائیں بائیں وہ اس سے نظر ہٹائیں گے نہ دائیں بائیں التفات کریں گے۔ فرمایا ﴿لَا عِوَجَ لَهُ﴾ یعنی پکارنے والے کی دعوت میں کوئی کجی نہ ہوگی بلکہ اس کی دعوت تمام خلائق کے لئے حق اور صدق پر مبنی ہوگی اور وہ پکار کر تمام خلائق تک اپنی آواز پہنچائے گا۔ تمام لوگ قیامت کے میدان میں حاضر ہوں گے اور رحمٰن کے سامنے ان کی آوازیں پست ہوں گی۔ ﴿فَلَا تَسْمَعُ إِلَّا هَمْسًا﴾ ” پس نہیں سنے گا تو سوائے کھسر پھسر کے۔“ یعنی فقط قدموں کی چاپ یا ہونٹوں کی حرکت سے پیدا ہونے والی پست آواز سنائی دے گی اور ان پر خشوع سکوت اور خاموشی طاری ہوگی اور رب رحمٰن کے فیصلے کے منتظر ہوں گے اور چہرے تذلل اور خضوع سے جھکے ہوئے ہوں گے تم اس عظیم مقام پر دیکھو گے کہ دولت مند اور فقراء مرد اور عورتیں آزاد اور غلام بادشاہ اور عوام سب نظریں نیچے کئے ساکت اور خاموش گھٹنوں کے بل گرے ہوئے اور گردنوں کو جھکائے ہوئے ہوں گے۔ کسی کو معلوم نہیں ہوگا کہ اس کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا۔ ہر شخص اپنے باپ بھائی اور دوست یار کو بھول کر صرف اپنے معاملے میں مشغول ہو گا﴿لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ يَوْمَئِذٍ شَأْنٌ يُغْنِيهِ﴾ (عبس: 80؍38) ” اس روز ہر شخص ایک معاملے میں مصروف ہوگا جو اسے دوسروں کے بارے میں بے پروا کر دے گا۔ “ حاکم عادل اس بارے میں فیصلہ کرے گا، نیکوکار کو اس کی نیکی کی جزا دے گا اور بدگار کو محروم کرے گا۔ رب کریم اور رحمٰن و رحیم پر امید یہ ہے کہ تمام خلائق اس کے ایسے فضل و احسان، عفو و درگزر اور بخشش کو دیکھے گی زبان جس کی تعبیر سے قاصر اور فکر اس کے تصور سے بے بس ہے۔ تب تمام خلائق اس کی رحمت کی منتظر ہوگی مگر رحمت ان لوگوں کے لئے مختص ہوگی جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے۔ اگر یہ سوال کیا جائے کہ یہ امید آپ کیسے رکھ سکتے ہیں؟ دوسرے لفظوں میں کہا جاسکتا ہے کہ اس امید مذکور کا آپ کو کیسے علم ہوا؟ تو ہم اس کے جواب میں عرض کریں گے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کے غضب پر غالب ہے اس کی عنایات تمام مخلوقات پر عام ہیں۔ ہم اس دنیاوی زندگی میں مشاہدہ کرتے ہیں کہ ہمیں اور دیگر لوگوں کو لا محدود نعمتیں حاصل ہیں خاص طور پر روز قیامت کے متعلق اللہ کے یہ فرامین ﴿وَخَشَعَتِ الْأَصْوَاتُ لِلرَّحْمَـٰنِ﴾،﴿إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَـٰنُ﴾ اور ﴿ الْمُلْكُ يَوْمَئِذٍ الْحَقُّ لِلرَّحْمَـٰنِ﴾ (الفرقان : 25؍26)” اس امر پر دلالت کرتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ اللہ کی رحمت کے سو حصے ہیں اس نے ایک حصہ اپنے بندوں کے لئے نازل فرمایا ہے، اس رحمت ہی کی بنا پر وہ ایک دوسرے کے ساتھ رحم اور عاطفت سے پیش آتے ہیں حتیٰ کہ ایک چو پائے کا پاؤں اگر اس کے بچے پر آجائے تو وہ اپنے پاؤں کو اٹھا لیتا ہے تاکہ وہ اس کو روند نہ ڈالے یہ اس رحم کی وجہ سے ہے جو اس چو پائے کے دل میں و دیعت کیا گیا ہے۔ جب قیامت کا روز ہوگا تو رحمت کا یہ حصہ بھی ننانوے حصے میں شامل ہوجائے گا۔ اور اللہ رحمت کے ان سو حصوں کے ساتھ اپنے بندوں پر رحم فرمائے گا۔‘‘ [صحيح البخاري، الادب، باب جعل الله الرحمة في مائة جزء، ح: 6000 و صحيح مسلم، التوبة، باب سعة رحمة الله تعاليٰ.....، ح: 2752] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :” ماں اپنی اولاد کے لئے جس قدر رحیم ہے اللہ اس سے کہیں زیادہ اپنے بندوں کے لیے رحیم ہے۔‘‘ [صحيح البخاري، الادب، باب رحمة الولد و تقبيله و معانقته، ح: 2752] اللہ تعالیٰ کی رحمت کے بارے میں آپ جو چاہیں کہیں وہ آپ کے اندازوں اور آپ کے تصور سے کہیں زیادہ ہے..... پس پاک ہے وہ ذات، جو اپنے عدل و انصاف اور سزا دینے میں اسی طرح رحیم ہے جس طرح وہ اپنے فضل و احسان اور ثواب عطا کرنے میں رحیم ہے۔ بلند و بالا ہے وہ ہستی جس کی رحمت ہر چیز پر سایہ کناں ہے اور جس کا فضل و کرم ہر زندہ مخلوق کو شامل ہے وہ اپنی بے نیازی کے باعث اپنے بندوں سے بالا و برتر اور ان پر نہایت رحم کرنے والا ہے۔ بندے اپنے تمام احوال میں ہمیشہ اس کے محتاج ہیں اور لمحہ بھر کے لئے اللہ تعالیٰ سے بے نیاز نہیں رہ سکتے۔