وَلَقَدْ أَوْحَيْنَا إِلَىٰ مُوسَىٰ أَنْ أَسْرِ بِعِبَادِي فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِيقًا فِي الْبَحْرِ يَبَسًا لَّا تَخَافُ دَرَكًا وَلَا تَخْشَىٰ
اور بلاشبہ یقیناً ہم نے موسیٰ کی طرف وحی کی کہ میرے بندوں کو راتوں رات لے جا، پس ان کے لیے سمندر میں ایک خشک راستہ بنا، نہ تو پکڑے جانے سے خوف کھائے گا اور نہ ڈرے گا۔
جب موسیٰ علیہ السلام معجزات کے ذریعے سے فرعون اور اس کی قوم پر غالب آگئے تو وہ مصر میں ٹھہر گئے اور فرعون اور قوم فرعون کو اسلام کی دعوت دینے لگے اور اس کے ساتھ ساتھ بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی اور اس کی تعذیب سے نجات دلانے میں کوشاں رہے۔ فرعون اپنی سرکشی اور روگردانی پر جما ہوا تھا اور بنی اسرائیل کے بارے میں اس کا معاملہ بہت سخت تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے وہ آیات و معجزات دکھائے جن کا قرآن میں ذکر فرمایا اور بنی اسرائیل اعلانیہ اپنے ایمان کے اظہار پر قادر نہیں تھے انہوں نے اپنے گھروں کو مسجد بنا رکھاتھا اور نہایت صبر و استقامت کے ساتھ وہ فرعون کی تعذیب اور اذیتوں کا سامنا کر رہے تھے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارادہ فرمایا کہ وہ بنی اسرائیل کو اس کے دشمن کی غلامی سے رہائی دلا کر ایک ایسی سرزمین میں آباد کرے جہاں وہ علانیہ اس کی عبادت کریں اور اس کے دین کو قائم کریں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بنی موسیٰ علیہ السلام کے ذریعے سے حکم دیا کہ وہ خفیہ طور پر بنی اسرائیل کو مصر سے نکلنے کے منصوبے سے آگاہ کریں، رات کے ابتدائی حصے میں مصر سے نکل کرراتوں رات بہت دور نکل جائیں اور خبردار کردیا کہ فرعون اپنی قوم کے ساتھ ان کا تعاقب کرے گا، چنانچہ تمام بنی اسرائیل اپنے اہل و عیال سمیت، رات کے پہلے پہر، مصر سے نکل کھڑے ہوئے۔ جب صبح ہوئی تو مصریوں نے دیکھا کہ شہر میں (بنی اسرائیل میں سے) کوئی بلانے والا ہے، نہ جواب دینے والا تو ان کا دشمن فرعون سخت غضبناک ہوا۔ اس نے تمام شہروں میں ہر کارے بھجوا دیئے تاکہ وہ لوگوں کو اکٹھا کریں اور ان کو بنی اسرائیل کے تعاقب پر آمادہ کریں تو وہ ان کو پکڑ کر ان پر اپنا غصہ نکال سکے، لیکن اللہ تعالیٰ اپنے امر کو نافذ کرنے پر غالب ہے۔ پس فرعونی لشکر جمع ہوگیا تو وہ اسے لے کر بنی اسرائیل کے تعاقب میں روانہ ہوگیا ﴿ فَلَمَّا تَرَاءَى الْجَمْعَانِ قَالَ أَصْحَابُ مُوسَىٰ إِنَّا لَمُدْرَكُونَ﴾ (الشعراء:26؍61) ” جب دونوں گروہوں نے ایک دوسرے کو دیکھا تو (حضرت) موسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں نے کہا لو ہم پکڑے گئے“ ان پر خوف طاری ہوگیا، سمندر ان کے سامنے تھا اور فرعون (اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ) ان کے پیچھے تھا اور وہ غیض و غضب سے لبریز تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نہایت مطمئن اور پرسکون اور انہیں اپنے رب کے وعدے پر پورا بھروسہ تھا، چنانچہ انہوں نے کہا : ﴿كَلَّا إِنَّ مَعِيَ رَبِّي سَيَهْدِينِ﴾ (الشعراء:26؍62) ” ہرگز نہیں ! میرے ساتھ میرا رب ہے وہ مجھے ضرور کوئی راہ دکھائے گا۔‘‘ پس اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام علیہ السلام کی طرف وحی کی کہ وہ اپنا عصا سمندر پر ماریں۔ انہوں نے اپنا عصا سمندر پر مارا تو وہ پھٹ گیا اور اس میں بارہ راستے بن گئے اور پانی بلند پہاڑ کی مانند راستوں کے دائیں بائیں کھڑا ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان تمام راستوں کو خشک کردیا جن سے پانی دور ہٹ گیا۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو تسلی دیتے ہوئے حکم دیا کہ وہ فرعون سے ڈریں نہ سمندر میں غرق ہونے سے ڈریں۔ پس وہ سمندر میں بنے ہوئے راستوں پر چل پڑے۔