لَّا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِن طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ مَا لَمْ تَمَسُّوهُنَّ أَوْ تَفْرِضُوا لَهُنَّ فَرِيضَةً ۚ وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ مَتَاعًا بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُحْسِنِينَ
تم پر کوئی گناہ نہیں اگر تم عورتوں کو طلاق دے دو، جب تک تم نے انھیں ہاتھ نہ لگایا ہو، یا ان کے لیے کوئی مہر مقرر نہ کیا ہو اور انھیں سامان دو، وسعت والے پر اس کی طاقت کے مطابق اور تنگی والے پر اس کی طاقت کے مطابق ہے، سامان معروف طریقے کے مطابق دینا ہے، نیکی کرنے والوں پر یہ حق ہے۔
یعنی اے مردو ! اگر تم اپنی بیویوں کو چھونے اور مہر مقرر کرنے سے قبل ہی طلاق دے دو، تو تم پر کوئی گناہ نہیں، اگرچہ اس میں عورتوں کے لئے نقصان ہے تاہم متعہ طلاق سے اس کی تلافی ہوجاتی ہے۔ پس تم پر لازم ہے کہ تم ان کی دل جوئی کی خاطر ان کو کچھ مال ضرور عطا کرو۔ ﴿عَلَی الْمُوْسِعِ قَدَرُہٗ وَعَلَی الْمُقْتِرِ قَدَرُہٗ ۚ ﴾” فراخ دست پر اس کی طاقت کے مطابق اور تنگ دست پر اس کی وسعت کے مطابق“ مطلقہ کو خرچ دینا لازم ہے اور اس کا مرجع عرف ہے جو کہ زمان و مکان کے اختلاف کے مطابق مختلف ہے۔ اس لئے فرمایا ﴿مَتَاعًۢا بِالْمَعْرُوْفِ ۚ﴾ ”فائدہ پہنچانا ہے معروف کے ساتھ‘،پس یہ حق واجب ہے ﴿ عَلَی الْمُحْسِـنِیْنَ﴾” نیکو کاروں پر“ اس لئے ان کو اس حق میں کمی نہیں کرنی چاہئے۔ پس جیسے وہ عورتوں کی امیدوں، ان کے اشتیاق اور ان کے دلی تعلق کا سبب بنے، لیکن پھر انہوں نے ان کو وہ چیز نہیں دی جو ان عورتوں کو مرغوب تھی، اس لئے اس کے مقابلے میں ان کو فائدہ پہنچانا ضروری ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ کتنا اچھا ہے ! اور شارع کی حکمت اور رحمت پر کس قدر دلالت کرتا ہے ! اور ایمان و ایقان سے بہرہ ور لوگوں کے لئے اللہ سے بڑھ کر کون اچھا فیصلہ کرنے والا ہے۔ یہ حکم تو ان عورتوں سے متعلق تھا جن کو چھونے سے پہلے اور حق مہر مقرر کرنے سے پہلے ہی طلاق دے دی گئی ہو۔