وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا ۖ فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا فَعَلْنَ فِي أَنفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ
اور جو لوگ تم میں سے فوت کیے جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں وہ (بیویاں) اپنے آپ کو چار مہینے اور دس راتیں انتظار میں رکھیں، پھر جب اپنی مدت کو پہنچ جائیں تو تم پر اس میں کچھ گناہ نہیں جو وہ اپنی جانوں کے بارے میں معروف طریقے سے کریں اور اللہ اس سے جو تم کرتے ہو پوری طرح باخبر ہے۔
یعنی جب خاوند فوت ہوجائے تو عورت پر فرض ہے کہ وہ گھر میں چار مہینے دس دن ٹھہرے اور انتظار کرے۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ چار ماہ کی مدت میں حمل واضح ہوجاتا ہے اور پانچویں مہینے کی ابتدا میں بچہ پیٹ میں حرکت کرنے لگ جاتا ہے۔ یہ حکم ان تمام عورتوں کے لئے عام ہے جن کے شوہر فوت ہوجائیں۔ مگر اس عموم میں سے حاملہ عورتیں مخصوص ہیں، کیونکہ ان کی عدت وضع حمل ہے۔ اسی طرح لونڈی کی عدت نصف یعنی دو ماہ اور پانچ دن ہے۔ ﴿ فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَہُنَّ ﴾” پس جب ان کی عدت پوری ہوجائے“﴿ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیْمَا فَعَلْنَ فِیْٓ اَنْفُسِہِنَّ﴾” تو جو وہ اپنے لئے کریں اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں“ یعنی اگر وہ دوبارہ بناؤ سنگار کرتی ہیں اور خوشبو وغیرہ لگاتی ہیں ﴿بِالْمَعْرُوْفِ ۭ﴾” بھلائی کے ساتھ“ یعنی اگر وہ بناؤ سنگار اس طرح کریں جو حرام اور مکروہ نہ ہو (بلکہ معروف طریقے سے ہو) یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ جس عورت کا خاوند فوت ہوجائے اس پر عدت کی مدت کے لئے سوگ منانا (یعنی بناؤ سنگار سے پرہیز کرنا) فرض ہے۔ جب کہ یہ پرہیز مطلقہ رجعیہ اور بائنہ پر واجب نہیں، اس پر اہل علم کا اجماع ہے۔ ﴿ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ﴾” اور اللہ تمہارے سب کاموں سے واقف ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ تمہارے ظاہری اور باطنی، چھوٹے اور بڑے تمام اعمال کو جانتا ہے۔ پس وہ تمہیں ان کا بدلہ دے گا اور عورت کے اولیا سے اللہ تعالیٰ کے خطاب ﴿ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیْمَا فَعَلْنَ فِیْٓ اَنْفُسِہِنَّ﴾ میں اس امر کی دلیل ہے کہ عورت کا ولی اس پر نظر رکھے اور جو فعل جائز نہ ہو اس کے ارتکاب سے اسے منع کرے اور اس فعل کو بجا لانے پر اسے مجبور کرے جو اس پر واجب ہو۔ عورت کا ولی اس آیت کا مخاطب ہے اور ایسا کرنا اس پر واجب ہے۔