الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ مَهْدًا وَسَلَكَ لَكُمْ فِيهَا سُبُلًا وَأَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِّن نَّبَاتٍ شَتَّىٰ
وہ جس نے تمھارے لیے زمین کو بچھونا بنایا اور تمھارے لیے اس میں راستے جاری کیے اور آسمان سے کچھ پانی اتارا، پھر ہم نے اس کے ساتھ کئی قسمیں مختلف نباتات سے نکالیں۔
پھر موسیٰ نے اللہ تعالیٰ کی بہت سی نعمتوں اور احاسنات کا ذکر کر کے اس دلیل قاطع کو ان پر لازم کردیا، چنانچہ فرمایا : ﴿الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ مَهْدًا﴾ یعنی اس نے زمین کو تمہارے لئے بچھونا بنایا، تم اس سے سکون و قرار حاصل کرتے ہو، اس پر عمارتیں تعمیر کرتے ہو، باغات لگاتے ہو، زراعت کے لئے اس میں ہل چلاتے ہو اور ان تمام کاموں کے لئے زمین کو تمہارے لئے مسخر کردیا ہے اور وہ تمہارے لئے تمہارے فوائد اور مصالح فراہم کرنے سے انکار نہیں کرتی ﴿وَسَلَكَ لَكُمْ فِيهَا سُبُلًا ﴾ یعنی ایک جگہ سے دوسری جگہ، ایک ملک سے دوسرے ملک پہنچانے کے لئے تمہارے لئے زمین میں راستے بنائے یہاں تک کہ انسان تمام روئے زمین پر ہر جگہ آسانی سے پہنچنے پر قادر ہیں اور وہ اپنے گھروں میں قیام پذیر رہ کر جو فائدہ اٹھاتے ہیں اس کی نسبت اپنے سفروں میں زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ﴿وَأَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِّن نَّبَاتٍ شَتَّىٰ﴾ ” یعنی اللہ تعالیٰ نے بارش برسائی ﴿فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا﴾ (البقرۃ:2؍164)’’اور اس بارش سے زمین کے مردہ ہوجانے کے بعد اس کو زندہ کیا۔“ پھر اس بارش کے ذریعے سے مختلف انواع، مختلف اشکال اور مختلف احوال کے مطابق نباتات کی بہت سی اصناف پیدا کیں، پھر اس نباتات سے ہمارے لئے اور ہمارے مویشیوں کے لیے رزق فراہم کیا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو روئے زمین کے تمام انسان اور حیوان ہلاک ہوجاتے۔