قَالَ عِلْمُهَا عِندَ رَبِّي فِي كِتَابٍ ۖ لَّا يَضِلُّ رَبِّي وَلَا يَنسَى
کہا ان کا علم میرے رب کے پاس ایک کتاب میں ہے، میرا رب نہ بھٹکتا ہے اور نہ بھولتا ہے۔
موسیٰ نے فرمایا : ﴿ عِلْمُهَا عِندَ رَبِّي فِي كِتَابٍ لَّا يَضِلُّ رَبِّي وَلَا يَنسَى﴾ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کے اچھے برے تمام اعمال کو شمار کر کے اپنی کتاب، یعنی لوح محفوظ میں لکھ دیا ہے۔ علم و خبر کے اعتبار سے اس نے ان کا احاطہ کر رکھا ہے کوئی چیز اس کے شمار کرنے اور لکھنے سے چھوٹتی نہیں اور نہ کوئی چیز اس سے بھولتی ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ انہوں نے جو بھی اعمال آگے بھیجے ہیں قیامت کے روز انہیں ان اعمال کا سامنا کرنا ہوگا اور ان کو ان کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔۔۔ اس لئے اے فرعون ان کے بارے میں تیرے اس سوال اور استفہام کا کوئی معنی نہیں۔ وہ ایک امت تھی جو گزر گئی ان کے اعمال ان کے لئے ہیں اور تم جو عمل کرو گے وہ تمہارے لئے ہے۔ اس لئے وہ دلیل جو ہم نے تیرے سامنے پیش کی ہے اور وہ نشانیاں جو ہم تجھے دکھا چکے ہیں، اگر تجھ پر ان کی صداقت متحقق ہوچکی ہے تو حق کے سامنے سرتسلیم خم کر دے۔ کفر، ظلم اور باطل کے ذریعے کثرت جدال کو چھوڑدے اور اگر تجھے اس بارے میں کوئی شک ہے اور تجھے اس پر یقین نہیں ہے تو بحث کا دروازہ کھلا ہوا ہے، دلیل کا جواب دلیل سے اور برہان کا جواب برہان سے ہونا چاہئے اور جب تک دن رات باقی ہیں تو کبھی بھی ایسا نہیں کرسکے گا اور یہ ہو بھی کیسے سکتا ہے حالانکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کے بارے میں خبر دی ہے کہ اس نے ان آیات کا ان کی صداقت کا قائل ہونے کے بعد انکار کیا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ﴿وَجَحَدُوا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَا أَنفُسُهُمْ ظُلْمًا وَعُلُوًّا﴾ (النمل:27؍14) ” انہوں نے ان آیات کا، ان کا قائل ہونے کے بعد، ظلم اور تکبر کی بنا پر انکار کیا۔ “ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا : ﴿ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا أَنزَلَ هَـٰؤُلَاءِ إِلَّا رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ بَصَائِرَ ﴾ (بنی اسرائیل:17؍102)” تجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ بصیرت افروز نشانیاں آسمانوں اور زمین کے رب کے سوا کسی نے نازل نہیں کیں۔“ تب معلوم ہوا کہ فرعون اپنی بحث و جدال میں ظلم کا مرتکب ہوا اور اس کا مقصد زمین میں تغلب کا حصول تھا۔