فَأْتِيَاهُ فَقُولَا إِنَّا رَسُولَا رَبِّكَ فَأَرْسِلْ مَعَنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَا تُعَذِّبْهُمْ ۖ قَدْ جِئْنَاكَ بِآيَةٍ مِّن رَّبِّكَ ۖ وَالسَّلَامُ عَلَىٰ مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَىٰ
تو اس کے پاس جاؤ اور کہو بے شک ہم تیرے رب کے بھیجے ہوئے ہیں، پس تو بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ بھیج دے اور انھیں عذاب نہ دے، یقیناً ہم تیرے پاس تیرے رب کی طرف سے ایک نشانی لے کر آئے ہیں اور سلام اس پر جو ہدایت کے پیچھے چلے۔
تحقیق وحی کی گئی ہے ہماری طرف کہ بے شک عذاب ہے اس شخص پر جس نے تکذیب کی اور منہ پھیرا، یعنی ان دو باتوں کے ساتھ فرعون کے پاس جائیں۔ (1) فرعون کو اسلام کی دعوت دیں۔ (2) شرف کے حامل قبیلہ، بنی اسرائیل کو فرعون کی قید اور اس کی غلامی سے نجات دلائیں تاکہ وہ آزاد ہو کر اپنے معاملات کے بارے میں خود فیصلہ کریں اور موسیٰ ان پر اللہ تعالیٰ کی شریعت اور اس کے دین کو نافذ کریں۔ ﴿قَدْ جِئْنَاكَ بِآيَةٍ﴾ ” ہم تیرے پاس آئے ہیں نشانی لے کر۔“ جو ہماری صداقت پر دلالت کرتی ہے۔ ﴿ فَأَلْقَىٰ عَصَاهُ فَإِذَا هِيَ ثُعْبَانٌ مُّبِينٌ وَنَزَعَ يَدَهُ فَإِذَا هِيَ بَيْضَاءُ لِلنَّاظِرِينَ﴾(الاعراف:7؍108،107) ” موسیٰ نے اپنا عصا پھینکا اور یکایک وہ واضح طور پرسانپ بن گیا اور اس نے اپنا ہاتھ گریبان سے نکالا تو دیکھنے والوں کے سامنے سفید چمک رہا تھا۔“ ﴿ وَالسَّلَامُ عَلَىٰ مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَىٰ﴾ ” اور سلام ہے اس پر جس نے ہدایت کی پیروی کی۔“ یعنی جس نے صراط مستقیم کی پیروی کی اور شرع مبین سے راہ نمائی لی، اسے دنیا و آخرت کی سلامتی حاصل ہوگئی۔