فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّهُ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشَىٰ
پس اس سے بات کرو، نرم بات، اس امید پر کہ وہ نصیحت حاصل کرلے، یا ڈر جائے۔
﴿فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَّيِّنًا﴾ لفظی آداب کا خیال رکھتے ہوئے، نرمی کے ساتھ نہایت سہل اور لطیف بات کیجیے، فحش گوئی، ڈینگیں مارنے، سخت الفاظ اور درشت افعال سے پرہیز کیجیے۔ ﴿لَّعَلَّهُ﴾ شاید وہ اس نرم گوئی کے سبب سے ﴿يَتَذَكَّرُ﴾ نصیحت پکڑے جو اس کو فائدہ دے اور وہ اس پر عمل کرنے لگے ﴿يَخْشَىٰ﴾ اور نقصان دہ چیز سے ڈرے اور اسے ترک کر دے کیونکہ نرم گوئی اس کی طرف دعوت دیتی ہے اور سخت گوئی لوگوں کو اس سے متنفر کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ” نرم گوئی“ کی اپنے ارشاد میں تفسیر بیان کی ہے۔ ﴿فَقُلْ هَل لَّكَ إِلَىٰ أَن تَزَكَّىٰ وَأَهْدِيَكَ إِلَىٰ رَبِّكَ فَتَخْشَیٰ﴾ (النزعت: 79؍18،19) ” اور اس سے کہئے کہ کیا تو چاہتا ہے کہ پاک ہوجائے اور میں تیرے رب کی طرف تیری راہنمائی کروں تاکہ تو اپنے رب سے ڈرنے لگے؟“ کیونکہ اس قول میں جو نرمی اور آسانی پنہاں ہے اور سختی اور درشتی سے جس طرح پاک ہے، غور کرنے والے پر مخفی نہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے (ھل) کا لفظ استعمال کیا ہے جو ”عرض“ اور ” مشاورت“ پر دلالت کرتا ہے جس سے کوئی شخص نفرت نہیں کرتا اور اسے ہر قسم کی گندگی سے تطہیر اور تزکیہ کی طرف بلایا ہے۔ جس کی اصل شرک کی گندگی سے تطہیر ہے جسے ہر عقل سلیم قبول کرتی ہے۔ آپ نے یہ نہیں فرمایا (اُزَكِّيكَ) ” میں تجھے پاک کروں“ بلکہ فرمایا :( تَزَكّٰى) یعنی ” تو خود پاک ہوجائے۔ “ پھر موسیٰ علیہ السلام نے اسے اس کے رب کی طرف بلایا جس نے اس کی پرورش کی اور اسے ظاہری اور باطنی نعمتوں سے نوازا جن پر شکر اور ذکر کرنا چاہئے۔ اس لئے فرمایا : ﴿وَأَهْدِيَكَ إِلَىٰ رَبِّكَ فَتَخْشَىٰ﴾ (النزٰعت:79؍19) ” اور تاکہ میں تیرے رب کی طرف تیری راہنمائی کروں تاکہ تو اپنے رب سے ڈرنے لگے۔“ جب فرعون نے اس کلام نرم و نازک کو قبول نہ کیا، جس کا حسن دلوں کو پکڑ لیتا ہے تو معلوم ہوا کہ اس کو وعظ و نصیحت کا کوئی فائدہ نہیں، تو اللہ تعالیٰ نے اسے اسی طرح پکڑ لیا جس طرح ایک غالب اور مقتدر ہستی پکڑتی ہے۔