إِذْ تَمْشِي أُخْتُكَ فَتَقُولُ هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَىٰ مَن يَكْفُلُهُ ۖ فَرَجَعْنَاكَ إِلَىٰ أُمِّكَ كَيْ تَقَرَّ عَيْنُهَا وَلَا تَحْزَنَ ۚ وَقَتَلْتَ نَفْسًا فَنَجَّيْنَاكَ مِنَ الْغَمِّ وَفَتَنَّاكَ فُتُونًا ۚ فَلَبِثْتَ سِنِينَ فِي أَهْلِ مَدْيَنَ ثُمَّ جِئْتَ عَلَىٰ قَدَرٍ يَا مُوسَىٰ
جب تیری بہن چلی جاتی تھی، پس کہتی تھی کیا میں تمھیں اس کا پتا دوں جو اس کی پرورش کرے؟ پس ہم نے تجھے تیری ماں کی طرف لوٹا دیا، تاکہ اس کی آنکھ ٹھنڈی ہو اور وہ غم نہ کرے۔ اور تو نے ایک شخص کو قتل کردیا تو ہم نے تجھے غم سے نجات دی اور ہم نے تجھے آزمایا، خوب آزمانا، پھر کئی سال تو مدین والوں میں ٹھہرا رہا، پھر تو ایک مقرر اندازے پر آیا اے موسیٰ !
فرعون کے کارندے دودھ پلانے کو ایک ایک کر کے بچے کے پاس لائے مگر اس نے کسی کی چھاتی کو قبول نہ کیا۔ موسیٰ علیہ السلام کی بہن آئی اور فرعون اور اس کے کارندوں سے کہنے لگی۔ ﴿هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَىٰ أَهْلِ بَيْتٍ يَكْفُلُونَهُ لَكُمْ وَهُمْ لَهُ نَاصِحُونَ﴾ (القصص :28؍12) ” کیا میں تمہیں ایسے گھرانے کے متعلق نہ بتاؤں جو اس کی کفالت کریں اور اس کی خیر خواہی بھی کریں؟“ چنانچہ اس طرح ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو اس کی ماں کے پاس پہنچا دیا۔ ﴿فَرَجَعْنَاكَ إِلَىٰ أُمِّكَ كَيْ تَقَرَّ عَيْنُهَا وَلَا تَحْزَنَ ۚ وَقَتَلْتَ نَفْسًا﴾ ” پھر ہم نے تجھے تیری ماں کی طرف لوٹایا، تاکہ اس کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور وہ غم نہ کرے اور تو نے ایک جان کو قتل کردیا۔“ وہ مقتول قبطی تھا۔ ایک روز موسیٰ علیہ السلام ایسے وقت شہر میں داخل ہوئے جب شہر کے لوگ غفلت میں تھے۔ آپ نے دیکھا کہ وہ شخص آپس میں لڑر ہے ہیں ان میں ایک موسیٰ علیہ السلام کی قوم کا آدمی تھا اور دوسرا ان کی دشمن قوم یعنی قبطیوں سے تعلق رکھتا تھا۔ ﴿فَاسْتَغَاثَهُ الَّذِي مِن شِيعَتِهِ عَلَى الَّذِي مِنْ عَدُوِّهِ فَوَكَزَهُ مُوسَىٰ فَقَضَىٰ عَلَيْهِ ﴾ (القصص :28؍15) ” جو شخص ان کی قوم سے تھا اس نے اس شخص کے خلاف موسیٰ علیہ السلام کو مدد کے لئے پکارا جو اس کی دشمن قوم سے تھا، موسیٰ علیہ السلام نے اس کو ایک گھونسا مارا اور اس کا کام تمام کردیا۔“ اسی پر موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کی، اللہ تعالیٰ نے ان کو بخش دیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو معلوم ہوا کہ دربار کے لوگ ان کو تلاش کر رہے ہیں تاکہ ان کو قتل کردیا جائے تو وہاں سے فرار ہوگئے۔ ﴿ فَنَجَّيْنَاكَ مِنَ الْغَمِّ ﴾ ” پس ہم نے تجھ کو نجات دی غم سے“ یعنی گناہ کی سزا اور قتل سے ﴿وَفَتَنَّاكَ فُتُونًا ﴾ یعنی ہم نے تجھ کو آزمایا اور تجھ کو اپنے تمام احوال میں راست روپایا، یا ہم تجھ کو مختلف احوال و اطوار میں منتقل کرتے رہے یہاں تک کہ تو اپنے اس مقام کو پہنچ گیا جہاں تجھے پہنچناتھا۔ ﴿فَلَبِثْتَ سِنِينَ فِي أَهْلِ مَدْيَنَ﴾ ” پس تو اہل مدین میں کئی سال رہا۔“ یعنی جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون اور اس کے درباریوں نے قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تو موسیٰ علیہ السلام وہاں سے فرار ہو کر مدین پہنچ گئے اور وہاں انہوں نے نکاح کرلیا اور مدین میں آٹھ یا دس سال رہے۔ ﴿ ثُمَّ جِئْتَ عَلَىٰ قَدَرٍ يَا مُوسَىٰ ﴾ ” پھر تو آیا تقدیر کے مطابق اے موسیٰ!“ یعنی تو اس مقام پر اتفاقاً بغیر قصدوار اوہ بغیر ہماری تدبیر کے نہیں پہنچا بلکہ ہمارے لطف و کرم اور اندازے سے پہنچا ہے۔