إِذْ رَأَىٰ نَارًا فَقَالَ لِأَهْلِهِ امْكُثُوا إِنِّي آنَسْتُ نَارًا لَّعَلِّي آتِيكُم مِّنْهَا بِقَبَسٍ أَوْ أَجِدُ عَلَى النَّارِ هُدًى
جب اس نے ایک آگ دیکھی تو اپنے گھر والوں سے کہا تم ٹھہرو، بے شک میں نے ایک آگ دیکھی ہے، شاید میں تمھارے پاس اس سے کوئی انگارا لے آؤں، یا اس آگ پر کوئی رہنمائی حاصل کرلوں۔
﴿فَقَالَ لِأَهْلِهِ امْكُثُوا إِنِّي آنَسْتُ نَارًا ﴾ ” تو انہوں نے اپنے گھر والوں سے کہا، ذرا ٹھہرو میں نے آگ دیکھی ہے“ اور یہ آگ کوہ طور کے دائیں جانب تھی۔ ﴿لَّعَلِّي آتِيكُم مِّنْهَا بِقَبَسٍ﴾ ” شاید میں تمہارے پاس اس میں سے ایک انگارا لاؤں۔“ تاکہ تم اس سے آگ تاپ سکو ﴿ أَوْ أَجِدُ عَلَى النَّارِ هُدًى﴾ یا اس آگ کے پاس مجھے کوئی ایسا شخص مل جائے جو مجھے راستہ بتا دے۔ موسیٰ علیہ السلام کا مقصود تو حسی روشنی اور حسی ہدیات تھا۔ مگر انہوں نے وہاں معنوی نور یعنی نور وحی پا لیا۔ جس سے قلوب و ارواح روشن ہوتے ہیں اور انہیں حقیقی ہدایت یعنی صراط مستقیم کی طرف راہنمائی حاصل ہوئی جو نعمتوں بھری جنت کو جاتی ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک ایسی چیز سے بہرہ ور ہوئے جو ان کے کسی حاسب اور خواب و خیال میں بھی نہ تھی۔