وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ ۚ وَلَا يَحِلُّ لَهُنَّ أَن يَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللَّهُ فِي أَرْحَامِهِنَّ إِن كُنَّ يُؤْمِنَّ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَٰلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا ۚ وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
اور وہ عورتیں جنھیں طلاق دی گئی ہے اپنے آپ کو تین حیض تک انتظار میں رکھیں اور ان کے لیے حلال نہیں کہ وہ چیز چھپائیں جو اللہ نے ان کے رحموں میں پیدا کی ہے، اگر وہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہیں۔ اور ان کے خاوند اس مدت میں انھیں واپس لینے کے زیادہ حق دار ہیں، اگر وہ (معاملہ) درست کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں۔ اور معروف کے مطابق ان (عورتوں) کے لیے اسی طرح حق ہے جیسے ان کے اوپر حق ہے اور مردوں کو ان پر ایک درجہ حاصل ہے اور اللہ سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔
یعنی وہ عورتیں جن کو ان کے شوہروں نے طلاق دے دی ہے ﴿ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِہِنَّ﴾” اپنے تئیں رو کے رکھیں“ یعنی وہ انتظار کریں اور عدت پوری کریں ﴿ ثَلٰثَۃَ قُرُوْۗءٍ ۭ﴾ ” تین حیض“ (قرء) کے معنی میں اختلاف ہے بعض کے نزدیک اس کے معنی حیض اور بعض کے نزدیک طہر کے ہیں۔ تاہم صحیح مسلک یہ ہے کہ اس سے مراد تین حیض ہیں اور اس عدت کی متعدد حکمتیں ہیں، مثلاً جب مطلقہ عورت کو بتکرار تین حیض آجاتے ہیں تو برأت رحم ہوجاتی ہے اور معلوم ہو جاتا ہے کہ اس کے پیٹ میں حمل نہیں اور اس طرح نسب میں اختلاط کا کوئی خدشہ نہیں رہتا۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے مطلقہ عورتوں پر واجب کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے رحم میں جو کچھ تخلیق کیا ہے اس کے بارے میں آگاہ کریں اور حمل یا حیض کا چھپانا ان پر حرام ٹھہرایا ہے، کیونکہ ان کا حیض یا حمل چھپانا بہت سے مفاسد کا باعث بنتا ہے۔ حمل کو چھپانا اس بات کا موجب بنتا ہے کہ عورت اپنے حمل کے نسب کو کسی ایسے شخص کے ساتھ ملحق کر دے جس میں اسے رغبت ہے یا محض عدت کے پورا ہوجانے میں جلد بازی کے لئے حیض آنے کا اعلان کر دے۔ پس جب یہ عورت اپنے حمل کو اس کے باپ کے سوا کسی اور کے ساتھ ملحق کردیتی ہے، تو یہ چیز قطع رحمی اور میراث سے محروم کرنے کا باعث بنتی ہے، اس کے لئے اس کے محرموں اور اقارب سے پردے کا موجب بنتی ہے اور بسا اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ اس الحاق سے محارم کے درمیان نکاح کا رشتہ قائم ہوجاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں باپ کے سوا کسی اور شخص سے اس حمل کا الحاق ہوتا ہے اور اس کے نتیجہ میں اس کے تمام توابع، مثلاً میراث وغیرہ کا اثبات ہوتا ہے اور جس شخص کے ساتھ اس حمل کا الحاق کیا گیا ہوتا ہے، اس کے تمام اقارب کو اس بچے کے اقارب بنا دیتا ہے اور اس میں بہت بڑا شر اور فساد ہے جسے بندوں کے رب کے سوا کوئی نہیں جانتا اور اگر اس میں مذکورہ باتیں نہ بھی ہوں، تب بھی مطلقہ کا ایسے شخص سے نکاح کرلینا، جس سے اس کا نکاح جائز ہی نہیں تھا، تو اس کا یہ ایک نتیجہ ہی اس فعل کی برائی کے لئے کافی ہے، کیونکہ یہ نکاح، نکاح نہیں، زنا ہوگا، جو کبیرہ گناہ اور اس پر اصرار ہے۔ رہا حیض کو چھپانا تو اس نے عجلت سے کام لے کر جھوٹ بولتے ہوئے حیض آنیکی خبر دی ہے تو اس میں پہلے خاوند کی حق تلفی اور اپنے آپ کو دوسرے کے لئے مباح قرار دینا ہے نیز اس سے دیگر برائیاں متفرع ہوتی ہیں جیسا کہ گزشتہ سطور میں ہم ذکر کرچکے ہیں۔ اگر وہ حیض کے عدم وجود کی جھوٹی اطلاع دیتی ہے، تاکہ عدت لمبی ہوجائے اور اس طرح وہ نان و نفقہ حاصل کرسکے جو شوہر پر واجب نہ تھا تو یہ دو پہلوؤں سے اس پر حرام ہے۔ (١) اب وہ اس کی مستحق نہیں رہی۔ (٢) اس کو شریعت کی طرف منسوب کرنا حالانکہ وہ جھوٹی ہے۔ اس صورت میں بسا اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ عدت کے ختم ہوجانے کے بعد خاوند رجوع کرلیتا ہے (یعنی خاوند مطلقہ کی اطلاع کے مطابق سمجھتا ہے کہ ابھی عدت ختم نہیں ہوئی) یہ رجوع درحقیقت زنا ہے۔ کیونکہ یہ عورت اب اس کے لئے اجنبی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَلَا یَحِلُّ لَہُنَّ اَنْ یَّکْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللّٰہُ فِیْٓ اَرْحَامِہِنَّ اِنْ کُنَّ یُؤْمِنَّ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ﴾” ان کے لئے جائز نہیں کہ وہ اس چیز کو چھپائیں جو اللہ نے ان کے رحموں میں پیدا کی ہے، اگر وہ اللہ اور آخرت کے دن پر یقین رکھتی ہیں“ حیض یا حمل کو چھپانا اس امر کی دلیل ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتیں۔ اگر ان کا اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان ہوتا اور انہیں علم ہوتا کہ انہیں ان کے اعمال کی جزا ملے گی، تو ان سے کبھی یہ فعل صادر نہ ہوتا۔ اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر عورت اپنے معاملات کے بارے میں جن کی اطلاع اس کے سوا کسی اور کو نہیں ہوتی، مثلاً حیض اور حمل وغیرہ۔۔۔ کوئی خبر دیتی ہے، تو وہ قابل قبول ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَبُعُوْلَتُہُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّھِنَّ فِیْ ذٰلِکَ﴾” اور ان کے خاوند ان کو اپنی زوجیت میں لے لینے کے زیادہ حق دار ہیں۔“ یعنی جب تک بیویاں عدت کے اندر عدت پوری ہونے کی منتظر ہیں اس وقت تک ان کے شوہر ان سے رجوع کا زیادہ حق رکھتے ہیں ﴿ اِنْ اَرَادُوْٓا اِصْلَاحًا ۭ﴾ ” اگر ان کا ارادہ اصلاح کا ہے“ یعنی اگر شوہر رغبت، الفت اور مودت کا جذبہ رکھتے ہیں۔ اس آیت کریمہ کا مفہوم یہ ہے کہ اگر رجوع کرنے سے ان کا مقصد اصلاح نہیں تو وہ جائز نہیں۔ کیا خاوند اس قسم کا مقصد و ارادہ رکھتے ہوئے رجوع کرنے کا اختیار رکھتا ہے؟ فقہاء اس بارے میں دو آراء رکھتے ہیں۔ جمہور فقہاء کہتے ہیں کہ تحریم کے باوجود خاوند یہ اختیار رکھتا ہے مگر صحیح یہ ہے کہ اگر شوہر اصلاح کا ارادہ نہیں رکھتا تو رجوع کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ جیسا کہ آیت کریمہ کے ظاہری الفاظ دلالت کرتے ہیں۔ اور اس انتظار میں یہ دوسری حکمت ہے۔ وہ اس طرح کہ بسا اوقات شوہر بیوی کو طلاق دے کرنادم ہوتا ہے تو اس کے لئے یہ مدت رکھ دی گئی ہے، تاکہ وہ دوبارہ اپنے فیصلہ طلاق پر غور کرلے اور یہ اس امر کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ میاں بیوی کے درمیان الفت چاہتا ہے ان کے درمیان جدائی اسے پسند نہیں۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : أَبْغَضُ الْحَلَالِ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى الطَّلَاقُ” حلال چیزوں میں سے جو سب سے زیادہ اللہ کو ناپسند ہے، وہ طلاق ہے“ [سنن ابي داؤد، الطلاق، باب في كراهية الطلاق، حديث: 2187] رجوع کا یہ حق طلاق رجعی کے ساتھ مخصوص ہے۔ رہی طلاق بائن تو اس میں خاوند کو رجوع کا حق نہیں۔ البتہ اگر میاں بیوی دونوں رجوع پر راضی ہوں، تو نکاح کی پوری شرائط کے ساتھ نیا نکاح ضروری ہے۔ ﴿وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْہِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ﴾۠ ” اور عورتوں کا حق ویسا ہی ہے جیسے دستور کے مطابق (مردوں کا حق) عورتوں پر ہے۔“ یعنی عورتوں کے اپنے شوہروں پر وہی حقوق ہیں جو شوہروں کے اپنی بیویوں پر ہیں۔ میاں بیوی کے ایک دوسرے پر حقوق کے بارے میں اصل مرجع ”معروف“ ہے، یہاں معروف سے مراد اس زمانے اور اس شہر میں عورتوں مردوں کے بارے میں جاری عادت ہے۔ زمان و مکان، احوال و اشخاص اور عادات میں تغیر و تبدل کے ساتھ معروف میں تبدیلی ہوجائے گی۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ نان و نفقہ، لباس، معاشرتی تعلق، گھر، اسی طرح میاں بیوی کے درمیان خاص تعلق، ان سب کا مرجع ” معروف“ ہے۔ یہ عقد مطلق کی صورت میں ہے، یعنی نکاح کے وقت کوئی شرط طے نہ کی گئی ہو، لیکن جو نکاح مطلق نہیں، مقید یعنی شرطوں کے ساتھ ہوگا، تو وہاں ان شرطوں کا ایفاء ضروری ہوگا۔ البتہ کوئی ایسی شرط نہ ہو جو حرام کو حلال اور کسی حلال کو حرام ٹھہرا دے۔ ﴿وَلِلرِّجَالِ عَلَیْہِنَّ دَرَجَۃٌ ۭ﴾” اور مردوں کو عورتوں پر ایک درجہ فوقیت حاصل ہے۔“ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّـهُ بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ ۚ ﴾ (النساء : 4؍ 34) ” مرد عورتوں پر حاکم و قوام ہیں کیونکہ اللہ نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے نیز اس لئے بھی کہ مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔ “ منصب نبوت، منصب قضا، امامت صغریٰ، امامت کبری اور دیگر تمام شعبوں کی سربراہی مردوں سے مخصوص ہے۔ میراث وغیرہ جیسے بہت سے معاملات میں بھی مرد کو عورت کے مقابلے میں دوگنا حیثیت حاصل ہے۔ : ﴿وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ﴾” اور اللہ غالب صاحب حکمت ہے“ یعنی اللہ تعالیٰ عزت، غلبہ، بہت بڑے تسلط اور اختیارات کا مالک ہے۔ تمام کائنات اس کے سامنے سرافگندہ ہے مگر وہ اپنے غلبہ اور اختیارات کے باوجود اپنے تصرفات میں نہایت حکمت سے کام لیتا ہے۔ اس آیت کریمہ کے عموم سے مندرجہ ذیل صورتیں مستثنیٰ ہیں۔ (١) اگر مطلقہ حاملہ ہو تو اس کی عدت وضع حمل ہے۔ (٢) اگر مطلقہ غیر مدخولہ ہو، یعنی اس کے ساتھ خلوت صحیحہ نہ ہوئی ہو، تو اس پر کوئی عدت نہیں۔ (٣) لونڈیوں کی عدت دو حیض ہیں۔ جیسا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا قول ہے۔ آیات کریمہ کا سیاق دلالت کرتا ہے کہ آیت میں مذکورہ عورت سے مراد آزاد عورت ہے۔