قُلْ مَن كَانَ فِي الضَّلَالَةِ فَلْيَمْدُدْ لَهُ الرَّحْمَٰنُ مَدًّا ۚ حَتَّىٰ إِذَا رَأَوْا مَا يُوعَدُونَ إِمَّا الْعَذَابَ وَإِمَّا السَّاعَةَ فَسَيَعْلَمُونَ مَنْ هُوَ شَرٌّ مَّكَانًا وَأَضْعَفُ جُندًا
کہہ دے جو شخص گمراہی میں پڑا ہو تو لازم ہے کہ رحمان اسے ایک مدت تک مہلت دے، یہاں تک کہ جب وہ اس چیز کو دیکھ لیں گے جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے، یا تو عذاب اور یا قیامت کو، تو ضرور جان لیں گے کہ کون ہے جو مقام میں زیادہ برا اور لشکر کے اعتبار سے زیادہ کمزور ہے۔
جہاں اللہ تعالیٰ نے ان کی باطل دلیل کا ذکر کیا جو ان کے عناد کی شدت اور گمراہی کی قوت پر دلالت کرتی ہے، وہاں اس نے یہ بھی آگاہ فرما دیا کہ جو کوئی گمراہمی میں مستغرق اور اس پر راضی ہے اور گمراہی کے لئے کوشاں رہتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی گمراہی کو اور زیادہ کردیتا ہے اور گمراہی کے لئے اس کی چاہت میں اضافہ کردیتا ہے۔ یہ اس کے لئے اس جرم کی سزا ہے کہ اس نے ہدایت کو چھوڑ کر گمراہی کو اختیار کیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ وَأَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ يُؤْمِنُوا بِهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَنَذَرُهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ ﴾ (الانعام :6؍110) ” اور ہم ان کے دلوں اور نگاہوں کو پھیر دیں گے تو جیسے یہ پہلی مرتبہ ایمان نہ لائے تھے (ویسے پھر ایمان نہ لائیں گے) اور ہم ان کو ان کی سرکشی میں سرگرداں چھوڑ دیں گے۔ “ ﴿حَتَّىٰ إِذَا رَأَوْا﴾ ” یہاں تک کہ جب وہ لوگ دیکھیں گے“ جو کہتے تھے :” دونوں فریقوں میں سے کون زیادہ بہتر ہے مقام کے لحاظ سے اور کس کی مجلس اچھی ہے؟“ ﴿مَا يُوعَدُونَ إِمَّا الْعَذَابَ ﴾ ” جس کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا تو عذاب“ یعنی قتل وغیرہ کے ذریعے ان کو عذاب کی وعید سنائی گئی ہے۔ ﴿وَإِمَّا السَّاعَةَ﴾ ” اور یا قیامت“ جو اعمال کی جزا کا دروازہ ہے۔ ﴿فَسَيَعْلَمُونَ مَنْ هُوَ شَرٌّ مَّكَانًا وَأَضْعَفُ جُندًا﴾ ” پس عنقریب وہ جان لیں گے کہ کون بدتر ہے مقام کے لحاظ سے اور زیادہ کمزور ہے جتھے کے اعتبار سے۔“ یعنی اس وقت ان کے دعوے کا بطلان ظاہر ہوگا تب یہ حقیقت واضح ہوجائے گی کہ ان کا دعویٰ کس قدر کمزور تھا اور انہیں یقین ہوجائے گا کہ واقعی وہ بدکار لوگ تھے۔ مگر یہ علم انہیں کوئی فائدہ نہ دے گا کیونکہ اب ان کا دنیا میں واپس جانا ممکن نہیں کہ وہاں وہ پہلے اعمال کے برعکس اعمال بجا لائیں۔