سورة مريم - آیت 65

رَّبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا فَاعْبُدْهُ وَاصْطَبِرْ لِعِبَادَتِهِ ۚ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

جو آسمانوں کا اور زمین کا اور ان دونوں کے درمیان کی چیزوں کا رب ہے، سو اس کی عبادت کر اور اس کی عبادت پر خوب صابر رہ۔ کیا تو اس کا کوئی ہم نام جانتا ہے؟

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے احاطہ علم اور عدم نسیان کی علت بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿رَّبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ﴾ ” وہ رب ہے آسمانوں اور زمین کا۔“ پس زمین اور سامان میں اس کی ربوبیت، اور ان کا بہترین اور کامل ترین نظا م کے مطابق رواں دواں رہنا، جس میں غفلت کا کوئی شائبہ ہے نہ ان میں کوئی چیز بے فائدہ ہے اور نہ کوئی چیز باطل ہے۔۔۔ اس حقیقت پر قطعی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کا علم ہر چیز کو شامل ہے، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے آپ کو اس میں مشغول نہ کریں بلکہ آپ ان امور میں اپنے آپ کو مشغول کریں جو آپ کو کوئی فائدہ دیتے ہیں اور جن کا فائدہ آپ کی طرف لوٹتا ہے اور وہ ہے اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت جس کا کوئی شریک نہیں۔ ﴿وَاصْطَبِرْ لِعِبَادَتِهِ﴾ یعنی اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی عبادت پر کار بند رکھئے اس میں کوشاں رہئے اور مقدور بھر اس کو کامل ترین طریقے سے قائم کیجیے۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغولیت عبادت گزار کو تمام تعلقات اور شہوات کے ترک کرنے میں تسلی کا باعث ہوتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ وَلَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَىٰ مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِّنْهُمْ زَهْرَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا لِنَفْتِنَهُمْ فِيهِ ۚ وَرِزْقُ رَبِّكَ خَيْرٌ وَأَبْقَىٰ وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا﴾(طٰهٰ: 20؍131،132) ” ان کی اس دنیاوی شان و شوکت کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھیے جو ہم نے ان میں سے مختلف قسم کے لوگوں کو عطا کی ہے، تاکہ ہم اس کے ذریعے سے انہیں آزمائیں اور آپ کے رب کا عطا کردہ رزق بہتر اور ہمیشہ رہنے والا ہے، اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دیتے رہیے اور اور خود بھی اس کے پابند رہیے۔ “ ﴿هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا﴾ کیا آپ تمام مخلوق میں اس کی کوئی ہم نام، کوئی مشابہت اور مماثلت رکھنے وال ہستی جانتے ہیں؟ یہ استفہام نفی کا معنی دیتا ہے جو عقلاً معلوم ہے، یعنی آپ کسی ایسی ہستی کو نہیں جانتے جو اللہ تعالیٰ کی برابری کرنے والی اس کے مشابہ اور مماثل ہو۔ کیونکہ وہ رب ہے اور دوسرے مربوب، وہ خالق ہے اور دیگر تمام مخلوق، وہ ہر لحاظ سے بے نیاز ہے اور دیگر تمام ہر لحاظ سے بالذات محتاج ہیں، وہ کامل ہے جو ہر لحاظ سے کمال مطلق کا مالک ہے دیگر تمام ناقص ہیں کسی میں کوئی کمال نہیں سوائے اس کے جو اللہ تعالیٰ نے اسے عطا کردیا۔ پس یہ اس حقیقت پر برہان قاطع ہے کہ اللہ تعالیٰ اکیلا عبودیت کا مستحق ہے۔ اس کی عبادت حق اور ماسوا کی عبادت باطل ہے، اس لئے اس نے صرف اپنی عبادت کرنے اور اس پر پابند رہنے کا حکم دیا اور اس کی علت یہ بتلائی کہ وہ اپنے کمال، اپنی عظمت اور اسمائے حسنیٰ میں منفرد ہے۔