سورة مريم - آیت 64

وَمَا نَتَنَزَّلُ إِلَّا بِأَمْرِ رَبِّكَ ۖ لَهُ مَا بَيْنَ أَيْدِينَا وَمَا خَلْفَنَا وَمَا بَيْنَ ذَٰلِكَ ۚ وَمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِيًّا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور ہم نہیں اترتے مگر تیرے رب کے حکم کے ساتھ۔ اسی کا ہے جو ہمارے آگے ہے اور جو ہمارے پیچھے ہے اور جو اس کے درمیان ہے اور تیرا رب کبھی بھولنے والا نہیں۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

ایک دفعہ جبرئیل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر دیر سے نازل ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جبرئیل علیہ السلام سے فرمایا ’’آپ جتنی بار ہمارے پاس آتے ہیں، کاش اس سے زیادہ ہمارے پاس آئیں“ آپ نے یہ بات جبرئیل علیہ السلام کی طرف اشتیاق اور اس کی جدائی سے وحشت محسوس کرتے ہوئے کہی تاکہ اس کے نزول سے اطمینان قلب حاصل ہو۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے جبرئی علیہ السلام کی زبانی فرمایا : ﴿ وَمَا نَتَنَزَّلُ إِلَّا بِأَمْرِ رَبِّكَ﴾ ” ہم تو اپنے رب کے حکم ہی سے اترتے ہیں“ یعنی اس معاملے میں ہمیں کوئی اختیار نہیں اگر ہمیں نازل ہونے کا حکم دیا جاتا ہے تو ہم اس کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں ہم اس کے کسی حکم کی نافرمانی نہیں کرسکتے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿لَّا يَعْصُونَ اللّٰـهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ ﴾ (التحریم :66؍6) ” اللہ جو حکم ان کو دیتا ہے، وہ اس کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہ وہی کرتے ہیں جو ان کو حکم دیا جاتا ہے۔“ ہم تو مامور و محکوم بندے ہیں۔ ﴿ لَهُ مَا بَيْنَ أَيْدِينَا وَمَا خَلْفَنَا وَمَا بَيْنَ ذٰلِكَ﴾ ” اسی کیلئے ہے جو ہمارے سامنے ہے اور جو ہمارے پیچھے ہے اور جو اس کے درمیان میں ہے۔“ یعنی وہی ہے جو ہر زمان و مکان میں، امور ماضی، امور حاضر اور امور مستقبل کا مالک ہے اور جب یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ تمام معاملات اللہ تعالیٰ ہی کے قبضہ اختیار میں ہیں، تو ہم محض اس کے بندے اور اس کی دست تدبیر کے تحت ہیں، اس لئے تمام معاملہ ان دو باتوں کے مابین ہے: 1۔ آیا حکمت الٰہی اس فعل کا تقاضا کرتی ہے، کہ وہ اسے نافذ فرمائے؟ 2۔ یا حکمت الٰہی اس فعل کا تقاضا نہیں کرتی؟ کہ وہ اسے مؤخر کر دے؟ اس لئے فرمایا : ﴿وَمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِيًّا﴾ ” اور آپ کا رب بھولنے والا نہیں ہے۔“ یعنی آپ کا رب آپ کو فراموش کر کے مہمل نہیں چھوڑے گا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَىٰ﴾( الضحیٰ :93؍3) ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رب نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چھوڑا ہے نہ وہ آپ سے ناراض ہے۔“ بلکہ وہ اپنے بہترین قوانین جمیلہ اور تدابیر جلیلہ کے مطابق، آپ کے لئے احکام جاری کرتے ہوئے آپ کے تمام امور کو درخور اعتناء رکھتا ہے، یعنی جب ہم وقت معتاد سے تاخیر سے نازل ہوتے ہیں تو یہ چیز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو غمزدہ نہ کرے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس تاخیر کا ارادہ کیا ہے کیونکہ اس میں اس کی حکمت ہے۔