إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ يَا أَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا يَسْمَعُ وَلَا يُبْصِرُ وَلَا يُغْنِي عَنكَ شَيْئًا
جب اس نے اپنے باپ سے کہا اے میرے باپ! تو اس چیز کی عبادت کیوں کرتا ہے جو نہ سنتی ہے اور نہ دیکھتی ہے اور نہ تیرے کسی کام آتی ہے؟
چنانچہ فرمایا : ﴿إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ ﴾ ” جب انہوں نے کہا اپنے باپ سے“ یعنی بتوں کی عبادت کی قباحت بیان کرتے ہوئے اپنے باپ سے کہا : ﴿ يَا أَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا يَسْمَعُ وَلَا يُبْصِرُ وَلَا يُغْنِي عَنكَ شَيْئًا﴾ یعنی آپ ان بتوں کی عبادت کیوں کرتے ہیں جو اپنی ذات اور افعال میں ناقص ہیں، جو سن سکتے ہیں نہ دیکھ سکتے ہیں، جو اپنے عبادت گزار کو کوئی نفع پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان، بلکہ وہ خود اپنے آپ کو کوئی نفع نہیں پہنچاسکتے اور نہ اپنی ذات سے کوئی چیز دور ہٹانے کی قدرت رکھتے ہیں۔ پس یہ اس حقیقت پر ایک روشن دلیل ہے کہ ایسی ہستی کی عبادت کرنا، جو اپنی ذات اور اپنے افعال میں ناقص ہے، عقل اور شرع کے اعتبار سے قبیح ہے۔ اس کی تنبیہ اور اس کا اشارہ دلالت کرتا ہے کہ عبادت صرف اسی ہستی کی واجب اور مستحسن ہے جو کمال کی مالک ہے، جس کے سوا بندے کہیں سے نعمتیں حاصل نہیں کرسکتے، جس کے سوا کوئی اور ہستی ان سے کوئی تکلیف دور نہیں کرسکتی اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کی ذات۔