فَخَرَجَ عَلَىٰ قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرَابِ فَأَوْحَىٰ إِلَيْهِمْ أَن سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا
تو وہ عبادت خانے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آیا، پس انھیں اشارے سے کہا کہ پہلے اور پچھلے پہر تسبیح کرو۔
بایں ہمہ حضرت زکریا علیہ السلام صرف اس کلام سے عاجز تھے جس کا تعلق انسانوں سے ہے۔ تسبیح اور ذکر وغیرہ سے یہ چیز مانع نہ تھی۔ بناءبریں ایک اور آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَاذْكُر رَّبَّكَ كَثِيرًا وَسَبِّحْ بِالْعَشِيِّ وَالْإِبْكَارِ﴾ (آل عمران : 3 ؍41) ” نہایت کثرت سے صبح و شام اپنے رب کا ذکر اور تسبیح کر۔“ پس ان کا دل مطمئن ہوگیا اور وہ اس عظیم بشارت سے خوش ہوگئے اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے، اس کی عبادت اور ذکر کے ذریعے سے اس کا شکر ادا کیا۔ پس وہ اپنی محراب میں معتکف ہوگئے اور وہاں سے وہ اپنی قوم کے سامنے آئے ﴿فَأَوْحَىٰ إِلَيْهِمْ ﴾ اور انہیں حکم دیا یعنی اشارے اور رمز کے ساتھ ﴿ أَن سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا ﴾ ” کہ صبح اور شام اللہ کی پاکیزگی بیان کرو“ کیونکہ یحییٰ علیہ السلام کی بشارت تمام لوگوں کے حق میں دینی مصلحت تھی۔