قَالَ رَبِّ اجْعَل لِّي آيَةً ۚ قَالَ آيَتُكَ أَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلَاثَ لَيَالٍ سَوِيًّا
کہا اے میرے رب! میرے لیے کوئی نشانی مقرر کر دے۔ فرمایا تیری نشانی یہ ہے کہ تو تندرست ہوتے ہوئے لوگوں سے تین راتیں بات نہیں کرے گا۔
﴿ قَالَ رَبِّ اجْعَل لِّي آيَةً﴾ ” زکریا نے کہا : اے رب ! ٹھہرا دے میرے لئے کوئی نشانی“ یعنی جس سے میرا دل مطمئن ہو۔ یہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی خبر میں شک نہیں، بلکہ یہ ویسے ہی ہے جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عرض کی تھی ﴿ رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِي الْمَوْتَىٰ ۖ قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِن ۖ قَالَ بَلَىٰ وَلَـٰكِن لِّيَطْمَئِنَّ قَلْبِي﴾ (البقرہ : 2 ؍260) ” اے میرے رب ! مجھے دکھا دے کہ تو کیسے مردوں کو زندہ کرے گا؟ فرمایا : کیا تو ایمان نہیں رکھتا؟ عرض کی کیوں نہیں، مگر یہ اس لئے پوچھا ہے تاکہ اطمینان قلب حاصل ہو۔“ پس ان کو اپنے علم میں اضافہ کی طلب تھی، انہیں علم الیقین کے بعد عین الیقین کے مقام پر پہنچنے کی خواہش تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر رحم کرتے ہوئے ان کی دعا قبول فرمائی۔ ﴿ قَالَ آيَتُكَ أَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلَاثَ لَيَالٍ سَوِيًّا ﴾ ” فرمایا : تیری نشانی یہ ہے کہ تو بات نہیں کرے گا لوگوں سے تین رات تک صحیح تندرست ہوتے ہوئے۔“ ایک دوسری آیت میں ارشاد فرمایا : ﴿أَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ إِلَّا رَمْزًا﴾ (آل عمران :3 ؍41) ” تو بات نہیں کرے گا تین دن تک، مگر اشارے سے“ دونوں کا معنی ایک ہے کیونکہ کبھی رات سے تعبیر کیا جاتا ہے کبھی دن سے، دونوں کا مقصد ایک ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی تعجب خیز نشانیوں میں سے ہے کیونکہ تین دن تک، بغیر کسی بیماری اور نقص کے اور بغیر گونگا ہوئے بلکہ صحیح سلامت حالت میں بولنے سے عاجز ہونا اللہ تعالیٰ کی قدرت کی دلیل ہے جو فطرت کے قوانین عادیہ کو توڑ سکتی ہے۔