أَفَحَسِبَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَن يَتَّخِذُوا عِبَادِي مِن دُونِي أَوْلِيَاءَ ۚ إِنَّا أَعْتَدْنَا جَهَنَّمَ لِلْكَافِرِينَ نُزُلًا
تو کیا جن لوگوں نے کفر کیا انھوں نے گمان کرلیا ہے کہ وہ مجھے چھوڑ کر میرے بندوں کو حمایتی بنا لیں گے۔ بے شک ہم نے جہنم کو کافروں کے لیے بطور مہمانی تیار کر رکھا ہے۔
یہ مشرکین اور کافروں کے دعوے کے بطلان کی دلیل ہے جنہوں نے بعض انبیائے کرام اور اولیاء اللہ کو اللہ تعالیٰ کا شریک بنا دیا، وہ ان کی عبادت کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ اولیائے کرام ان کے مددگار ہوں گے جو ان کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نجات دلائیں گے اور ثواب عطا کریں گے، حالانکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں سے کفر کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ استفہام اور انکار کے پیرائے میں، جس سے ان کے اس عقیدے کا عقلی طور پر بطلان متحقق ہوتا ہے۔۔۔. فرماتا ہے : ﴿أَفَحَسِبَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَن يَتَّخِذُوا عِبَادِي مِن دُونِي أَوْلِيَاءَ ﴾ ” کیا سمجھتے ہیں کافر لوگ کہ ٹھہرائیں میرے بندوں کو میرے سوا دوست“ یعنی ایسا نہیں ہوسکتا اور کوئی ولی اللہ، اللہ تعالیٰ کے کسی دشمن کو اپنا دوست نہیں بنا سکتا کیونکہ تمام اولیاء اللہ، اللہ تعالیٰ سے محبت، اس کی رضا، اس کی ناراضی اور اس کے بغض کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی موافقت کرتے ہیں۔ اس معنی میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد، اس کے اس ارشاد کے مشابہہ ہے۔ ﴿وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا ثُمَّ يَقُولُ لِلْمَلَائِكَةِ أَهَـٰؤُلَاءِ إِيَّاكُمْ كَانُوا يَعْبُدُونَ قَالُوا سُبْحَانَكَ أَنتَ وَلِيُّنَا مِن دُونِهِم ﴾ )سبا:34؍40۔41 ( ” جس روز اللہ تمام لوگوں کو جمع کرے گا پھر فرشتوں سے (ان مشرکین کے متعلق) پوچھے گا کیا یہی وہ لوگ ہیں جو تمہاری عبادت کیا کرتے تھے؟ تو وہ جواب میں عرض کریں گے، تو پاک ہے ان کی بجائے تو ہمارا ولی (دوست) ہے۔ “ پس جو کوئی اس زعم میں مبتلا ہے کہ اس نے ولی اللہ کو اپنا دوست بنا لیا ہے جب کہ وہ خود اللہ تعالیٰ کا دشمن ہے۔ تو وہ سخت جھوٹا ہے۔۔۔. ظاہر میں اس آیت میں اس معنیٰ کا احتمال ہے کہ کیا کفار نے، جو اللہ تعالیٰ کے منکر اور اس کے رسولوں کے ساتھ دشمنی کرتے ہیں یہ گمان کیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو اپنا ولی و مددگار بنا لیں گے جو ان کی مدد کریں گے، ان کو فائدہ پہنچائیں گے اور ان سے تکلیفوں کو دور کریں گے؟ یہ ان کا باطل خیال اور فاسد گمان ہے کیونکہ مخلوق میں سے کسی کے قبضہ قدرت میں نفع و نقصان نہیں۔ یہ معنی اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے مشابہت رکھتا ہے۔ ﴿قُلِ ادْعُوا الَّذِينَ زَعَمْتُم مِّن دُونِهِ فَلَا يَمْلِكُونَ كَشْفَ الضُّرِّ عَنكُمْ وَلَا تَحْوِيلًا ﴾ (بنی اسرائیل : 17؍56) ” کہہ دیجئے کہ تم پکاردیکھو اپنے ان خود ساختہ معبودوں کو جن کو تم اللہ کے سوا کار ساز سمجھتے ہو، تو (یاد رکھو) وہ تمہاری تکلیف دور کرنے کی قدرت رکھتے ہیں نہ بدلنے کی۔“ اور اللہ تعالیٰ کے اس قول کے مشابہہ ہے۔ ﴿ وَلَا يَمْلِكُ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِهِ الشَّفَاعَةَ ﴾ (الزخرف : 43؍86)” وہ لوگ جن کو یہ اللہ کے سوا پکارتے ہیں، سفارش کا کوئی اختیار نہیں رکھتے۔“ اور اس قسم کی دیگر آیات جن میں اللہ تعالیٰ ذکر فرماتا ہے کہ جو کوئی اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر کسی کو ولی و مددگار بناتا ہے تاکہ وہ اس کی مدد کرے اور اس سے موالات رکھے وہ گمراہ ہے، وہ خائب و خاسر ہے اس کی امید پوری نہیں ہوگی اور نہ وہ اپنے مقصد کو پا سکے گا۔ ﴿إِنَّا أَعْتَدْنَا جَهَنَّمَ لِلْكَافِرِينَ نُزُلًا﴾ ” بے شک ہم نے تیار کیا ہے جہنم کو کافروں کی مہمانی کے لئے۔“ یعنی ہم نے کفار کی ضیافت اور مہمانی کے لئے جہنم تیار کر رکھی ہے۔ پس کیا بدترین قیام گاہ ان کا مسکن ہے اور کیا بدترین جہنم ان کی مہمانی ہے !