الَّذِينَ كَانَتْ أَعْيُنُهُمْ فِي غِطَاءٍ عَن ذِكْرِي وَكَانُوا لَا يَسْتَطِيعُونَ سَمْعًا
وہ لوگ کہ ان کی آنکھیں میرے ذکر سے پردے میں تھیں اور وہ سن ہی نہ سکتے تھے۔
یہ لوگ دنیا میں اس حال میں تھے : ﴿ الَّذِينَ كَانَتْ أَعْيُنُهُمْ فِي غِطَاءٍ عَن ذِكْرِي ﴾ ” ان کی آنکھوں پر پردہ پڑا تھا میری یاد سے“ یعنی یہ لوگ ذکر حکیم اور قرآن کریم سے روگردانی کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے : ﴿قُلُوبُنَا فِي أَكِنَّةٍ مِّمَّا تَدْعُونَا إِلَيْهِ﴾ (حم السجدة: 41؍5) ”جس چیز کی طرف تم ہمیں دعوت دیتے ہو اس سے ہمارے دل پردوں میں ہیں۔“ اور ان کی آنکھوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں جو ان کو اللہ تعالیٰ کی فائدہ مند نشانیوں کو دیکھنے سے روکتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ وَعَلَىٰ أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ ﴾(البقرة : 2؍7) ” اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا ہے۔“ ﴿وَكَانُوا لَا يَسْتَطِيعُونَ سَمْعًا﴾ ” اور وہ نہیں طاقت رکھتے تھے سننے کی“ یعنی وہ اللہ تعالیٰ کی آیات کو، جو ایمان تک پہنچاتی ہیں، قرآن اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بغض رکھنے کی وجہ سے سن نہیں سکتے کیونکہ بغض رکھنے والا شخص جس کے خلاف بغض رکھتا ہے اس کی بات کو غور سے سن نہیں سکتا۔ جب وہ علم اور بھلائی کے راستوں سے محجوب ہوجاتے ہیں تب ان کے پاس سننے کے لئے کان ہوتے ہیں نہ دیکھنے کے لئے آنکھیں اور نہ سمجھنے کے لئے عقل نافع۔ پس انہوں نے اللہ تعالیٰ سے کفر کیا، اس کی آیات کا انکار کیا اور اس کے رسولوں کو جھٹلایا، اس لئے وہ جہنم کے مستحق ٹھہرے جو بہت برا ٹھکانا ہے۔