قَالَ هَٰذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ ۚ سَأُنَبِّئُكَ بِتَأْوِيلِ مَا لَمْ تَسْتَطِع عَّلَيْهِ صَبْرًا
کہا یہ میرے درمیان اور تیرے درمیان جدائی ہے، عنقریب میں تجھے اس کی اصل حقیقت بتاؤں گا جس پر تو صبر نہیں کرسکا۔
اس پر حضرت خضر نے ان کی رفاقت سے معذرت کرلی اور ان سے کہا : ﴿هَـٰذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ ﴾ ” اب جدائی ہے میرے اور آپ کے درمیان“ کیونکہ جو شرائط آپ نے خود اپنے آپ پر عائد کی تھیں (ان کو آپ پورا نہ کرسکے) اب کوئی عذر باقی نہیں رہا اور نہ مصاحبت کی کوئی وجہ۔ ﴿سَأُنَبِّئُكَ بِتَأْوِيلِ مَا لَمْ تَسْتَطِع عَّلَيْهِ صَبْرًا﴾ ” اب میں آپ کو بتاؤں گا ان چیزوں کی حقیقت، جن پر آپ صبر نہ کرسکے“ یعنی میں ان امور کے بارے میں آپ کو بتاؤں گا جن کے بارے میں آپ نے مجھ پر نکیر کی اور آپ کو بتاؤں گا کہ ان تمام کاموں کے پیچھے کچھ مقاصد تھے جن پر معاملہ مبنی تھا۔