سورة الكهف - آیت 58

وَرَبُّكَ الْغَفُورُ ذُو الرَّحْمَةِ ۖ لَوْ يُؤَاخِذُهُم بِمَا كَسَبُوا لَعَجَّلَ لَهُمُ الْعَذَابَ ۚ بَل لَّهُم مَّوْعِدٌ لَّن يَجِدُوا مِن دُونِهِ مَوْئِلًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور تیرا رب نہایت بخشنے والا، خاص رحمت والا ہے، اگر وہ انھیں اس کی وجہ سے پکڑے جو انھوں نے کمایا ہے تو یقیناً ان کے لیے جلد عذاب بھیج دے، بلکہ ان کے لیے وعدے کا ایک وقت ہے جس سے بچنے کی وہ ہرگز کوئی پناہ گاہ نہ پائیں گے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی بے پایاں مغفرت اور رحمت کا ذکر کیا ہے، نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ گناہوں کو بخش دیتا ہے، جو کوئی توبہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرتا ہے اور اسے اپنی رحمت سے ڈھانپ لیتا ہے اور اسے اپنے احسان میں شامل کرلیتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی ان کے گناہوں پر گرفت کرے تو ان پر فوراً عذاب بھیج دے مگر وہ حلم والا ہے وہ سزا دینے میں جلدی نہیں کرتا وہ اپنے بندوں کو مہلت دیتا ہے مہمل نہیں چھوڑتا، جبکہ گناہوں کے آثار کا واقع ہونا ضروری امر ہے اگرچہ اس میں طویل مدت تک تاخیر ہی کیوں نہ ہو۔ اس لئے فرمایا : ﴿بَل لَّهُم مَّوْعِدٌ لَّن يَجِدُوا مِن دُونِهِ مَوْئِلًا﴾ ” بلکہ ان کے لئے ایک وعدہ ہے، ہرگز نہیں پائیں گے اس سے ورے سرک جانے کی جگہ“ یعنی ان کے لئے ایک وقت مقررہ ہے جس میں انہیں ان کے اعمال کی جزا دی جائے گی۔ یہ جزا انہیں ضرور ملے گی اور اس جزا و سزا سے بچنے کی ان کے لئے کوئی گنجائش نہیں۔ اس سے بچنے کے لئے کوئی پناہ گاہ ہے نہ کوئی جائے فرار۔۔۔ اولین و آخرین میں یہی سنت الٰہی ہے کہ وہ عذاب دینے میں جلدی نہیں کرتا بلکہ وہ انہیں توبہ اور انابت کی طرف بلاتا ہے۔ اگر وہ توبہ کر کے رجوع کرلیں تو اللہ تعالیٰ ان کو بخش دیتا ہے اور ان کو اپنی رحمت کے سائے میں لے کر ان سے عذاب کو ہٹا دیتا ہے۔ لیکن اگر وہ اپنے ظلم اور عناد پر جمے رہیں اور وقت مقررہ آجائے تو اللہ تعالیٰ ان پر اپنا عذاب نازل کردیتا ہے۔