قُلِ اللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا لَبِثُوا ۖ لَهُ غَيْبُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ أَبْصِرْ بِهِ وَأَسْمِعْ ۚ مَا لَهُم مِّن دُونِهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا يُشْرِكُ فِي حُكْمِهِ أَحَدًا
کہہ دے اللہ زیادہ جاننے والا ہے جتنی مدت وہ رہے، اسی کے پاس آسمانوں اور زمین کی چھپی ہوئی باتیں ہیں، وہ کس قدر دیکھنے والا اور کس قدر سننے والا ہے، نہ اس کے سوا ان کا کوئی مددگار ہے اور نہ وہ اپنے حکم میں کسی کو شریک کرتا ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد : ﴿أَبْصِرْ بِهِ وَأَسْمِعْ ﴾ ” کیا ہی خوب وہ دیکھتا اور سنتا ہے۔“ تمام معلومات پر اپنے علم کے احاطہ کے بارے میں آگاہ کرنے کے بعد کامل سمع و بصر، تمام مسموعات و مبصرات پر اس سمع و بصر کے محیط ہونے پر تعجب کا اظہار ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ ولایت عامہ اور ولایت خاصہ میں وہی منفرد ہے وہی ولی اور مددگار ہے جو تمام کائنات کی تدبیر کرتا ہے اپنے مومن بندوں کا دوست اور مددگار ہے وہ اہنیں اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے۔ فرمایا : ﴿مَا لَهُم مِّن دُونِهِ مِن وَلِيٍّ ﴾ ” نہیں ہے واسطے ان کے اس کے سوا، کوئی دوست کار ساز“ یعنی وہی ہے جس نے اپنے لطف و کرم سے اصحاب کہف کی سرپرستی فرمائی اور ان کے معاملے کو اپنی مخلوق میں سے کسی پر نہیں چھوڑا۔ ﴿وَلَا يُشْرِكُ فِي حُكْمِهِ أَحَدًا ﴾ ” اور وہ اپنے حکم میں کسی کو شریک نہیں کرتا“ اور یہ حکم کونی و قدری اور حکم دینی و شرعی دونوں کو شامل ہے وہی قضا و قدر اور تخلیق و تدبیر کے ذریعے سے اور امرو نہی اور ثواب و عقاب کے ذریعے سے اپنی مخلوق میں اپنا حکم نافذ کرتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرما دیا کہ آسمانوں اور زمین کے تمام غیبی امور کو وہ جانتا ہے تو مخلوق کے لیے ان کو جاننے کا اس طریقے کے سوا کوئی اور طریقہ نہیں، جو اس نے اپنے بندوں کو بتایا ہے۔ یہ قرآن کریم بہت سے غیبی امور پر مشتمل ہے اللہ تعالیٰ نے اس پر اپنی توجہ مرکوز کرنے کا حکم دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا :