فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلَىٰ آثَارِهِمْ إِن لَّمْ يُؤْمِنُوا بِهَٰذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا
پس شاید تو اپنی جان ان کے پیچھے غم سے ہلاک کرلینے والا ہے، اگر وہ اس بات پر ایمان نہ لائے۔
چونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خلائق کی ہدیت کی بے انتہا خواہش رکھتے تھے اور ان کی ہدایت کے لیے بے حد کوشاں رہتے تھے۔ آپ دین اسلام اختیار کرنے والے کے ہدایت قبول کرنے پر بہت خوش ہوتے تھے۔ تکذیب کرنے والے گمراہ لوگوں پر رحم و شفقت کی بنا پر متاسف اور غم زدہ ہوتے تھے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپ سے فرمایا کہ آپ ان لوگوں کے رویے پر افسوس اور تاسف میں مشغول نہ ہوں جو اس قرآن پر ایمان نہیں لاتے۔ جیسا کہ ایک دوسری آیت میں فرمایا ہے: ﴿لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ ﴾ (الشعرا:26؍3) ” شاید آپ اسی غم میں اپنے آپ کو ہلکان کرلیں گے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے۔“ ایک اور مقام پر فرمایا : ﴿ فَلَا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَيْهِمْ حَسَرَاتٍ﴾ (فاطر35؍8) ” پس ان لوگوں کے غم میں آپ کی جان نہ گھلے۔“ یہاں فرمایا : ﴿فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ ﴾ ” کیا آپ اپنے آپ کو ہلاک ڈالیں گے۔“ یعنی ان کے غم میں حالانکہ آپ کا اجرو ثواب تو اللہ تعالیٰ پر واجب ہوچکا ہے اگر ان لوگوں کی کوئی بھلائی اللہ تعالیٰ کے علم میں ہوتی تو وہ ضرور ان کو ہدایت سے نواز دیتا۔ مگر اسے معلوم ہے کہ یہ لوگ آگ کے سوا، کسی چیز کے قابل نہیں ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیا ہے اور وہ راہ راست نہ پا سکے آپ کا ان کے غم اور تاسف میں اپنے آپ کو مشغول کرنا آپ کو کوئی فائدہ نہیں دے گا۔ اس آیت کریمہ اور اس قسم کی دیگر آیات کریمہ میں عبرت ہے۔ مخلوق کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے پر مامور شخص پر تبلیغ دعوت، ان تمام اسباب کے حصول میں کوشاں رہنا جو ہدایت کی منزل پر پہنچاتے ہیں، امکان بھر گمراہی کے راستوں کو مسدود کرنا اور اس بارے میں اللہ تعالیٰ پر توکل فرض ہے۔ پس اگر وہ راہ راست پر گامزن ہوجائیں تو بہتر ہے ورنہ اس کو ان کے افسوس میں گھلنا نہیں چاہیے کیونکہ یہ چیز نفس کو کمزور اور قوی کو منہدم کردیتی ہے۔ اس میں کوئی فائدہ نہیں بلکہ ایسا کرنے سے وہ مقصد فوت ہوجائے گا جس پر اسے مامور کیا گیا ہے۔ تبلیغ، دعوت اور کوشش کے سوا ہر چیز اس کے اختیار سے باہر ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے : ﴿ إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ﴾ (القصص 28؍56)” آپ اسے ہدایت نہیں دے سکتے جسے آپ چاہتے ہیں۔“ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اعتراف کیا۔ ﴿ رَبِّ إِنِّي لَا أَمْلِكُ إِلَّا نَفْسِي وَأَخِي ﴾ (المائدہ 5؍25)” اے میرے رب ! میں اپنے آپ پر اور اپنے بھائی کے سوا کسی پر کوئی اختیار نہیں رکھتا۔“ تو انبیائے کرام کے علاوہ دیگر لوگ بدرجہ اولیٰ کسی کو ہدایت دینے کا اختیار نہیں رکھتے، جنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿فَذَكِّرْ إِنَّمَا أَنتَ مُذَكِّرٌ لَّسْتَ عَلَيْهِم بِمُصَيْطِرٍ ﴾ (الغاشیة :88؍22،21)” آپ نصیحت کیجیے۔ آپ تو صرف نصیحت کرنے والے ہیں، آپ ان پر کوئی داروغہ مقرر نہیں ہوئے۔ “