قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَىٰ أَن يَأْتُوا بِمِثْلِ هَٰذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا
کہہ دے اگر سب انسان اور جن جمع ہوجائیں کہ اس قرآن جیسا بنا لائیں تو اس جیسا نہیں لائیں گے، اگرچہ ان کا بعض بعض کا مددگار ہو۔
یہ اس بات کی قطعی دلیل اور واضح برہان ہے کہ جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے ہیں وہ صحیح اور صداقت پر مبنی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمام جنوں اور انسانوں کو معارضے کی دعوت دی ہے کہ وہ اس جیسا قرآن بنا لائیں اور اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے ان کو آگاہ بھی فرمایا دیا کہ وہ اس جیسا قرآن نہیں لا سکتے۔ خواہ وہ ایک دوسرے کی مدد ہی کیوں نہ کرلیں۔ یہ سب کچھ اسی طرح واقع ہوا جس طرح اللہ تعالیٰ نے خبر دی تھی۔ جھٹلانے والوں کی بہت زیادہ خواہش تھی کہ وہ کسی طریقے سے اس دعوت کو جھوٹا ثابت کریں جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لے کر آئے اور وہ لغت عرب کے ماہر اور فصاحت و بلاغت کے مالک تھے۔۔ اگر ان میں اس دعوت کا مقابلہ کرنے کی ذرا سی بھی اہلیت ہوتی تو وہ ضرور اس کا مقابلہ کرتے۔ اس سے یہ واضح ہوگیا کہ انہیوں نے طوعاً و کرہاً اس بارے میں میں اپنی بے بسی کو تسلیم کرلیا اور قرآن کے معارضے سے عاجز آگئے۔۔۔ اور وہ مخلوق جو مٹی سے پیدا کی گئی، جو ہر پہلو سے ناقص ہے، جو علم، قدرت، ارادہ اور مشیت سے محروم ہے، اس کا کلام اور کمال اس کے رب کا عطا کردہ ہے، رب کائنات کے کلام کا کس طرح مقابلہ کرسکتی ہے، جو تمام بھید کو جاننے والا ہے، جو کمال مطلق، حمد مطلق اور مجد عظیم کا مالک ہے، وہ ایسی ہستی ہے کہ اگر سات سمندروں کو روشنائی اور تمام درختوں کے قلم بنا دیے جائیں، تو تمام روشنائی ختم ہوجائے گی اور قلم فنا ہوجائیں گے مگر اللہ تعالیٰ کے کلمات کبھی ختم نہ ہوں گے۔ پس جیسے اللہ تعالیٰ کی صفات میں، اس کی مخلوق میں سے کوئی اس کے مماثل نہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ کا کلام بھی جو کہ اس کی صفت ہے۔۔۔ بے مثل ہے۔ اس کی ذات، اس کے اسماء، اس کی صفات اور اس کے افعال میں کوئی چیز اس کی مثیل نہیں۔ تب ہلاکت ہے اس شخص کے لیے جو مخلوق کے کلام کو خالق کے کلام کے مشابہ قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اپنے دل سے گھڑ کر اللہ تعالیٰ پر افترا پردازی کی ہے۔