وَمَن كَانَ فِي هَٰذِهِ أَعْمَىٰ فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْمَىٰ وَأَضَلُّ سَبِيلًا
اور جو اس میں اندھا رہا تو وہ آخرت میں بھی اندھا ہوگا اور راستے سے بہت زیادہ بھٹکا ہوا ہوگا۔
﴿وَمَن كَانَ فِي هَـٰذِهِ﴾اور جو رہا اس دنیا میں ﴿أَعْمَىٰ﴾ ” اندھا“ یعنی حق کے دیکھنے سے۔ پس اس نے حق کو قبول کیا نہ اس کی پیروی کی بلکہ وہ گمراہی کے راستے پر چلتا رہا ﴿ فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْمَىٰ﴾ ” تو وہ آخرت میں بھی اندھا ہوگا“ یعنی جس طرح وہ دنیا میں جنت کے راستے پر گامزن نہ ہوا اسی طرح وہ آخرت میں بھی جنت کے راستے کو دیکھ نہ سکے گا ﴿ وَأَضَلُّ سَبِيلًا﴾ ” اور بہت دور پڑا ہوا راستے سے“ کیونکہ عمل کی جزا بھی اسی کی جنس سے ہوتی ہے، یعنی جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ ہر امت کو اس کے دین اور کتاب کی طرف بلایا جائے گا کہ آیا اس نے اس کتاب کے مطابق عمل کیا یا نہیں؟ ان کا کسی ایسے نبی کی شریعت کے مطابق مواخذہ نہیں کیا جائے گا جس کی اتباع کا ان کو حکم نہیں دیا گیا تھا اور اللہ تعالیٰ کسی شخص کو صرف اسی وقت عذاب دیتا ہے جب اس پر حجت قائم کردی گئی ہو اور اس نے اس کی مخالفت کی ہو اور نیک لوگوں کو ان کے اعمال نامے ان کے دائیں ہاتھ میں پکڑائے جائیں گے اور انہیں بہت زیادہ فرحت و سرور حاصل ہوگا اور اس کے برعکس برے لوگوں کو ان کے اعمال نامے بائیں ہاتھ میں دیے جائیں گے اور وہ غم زدہ ہوں گے وہ شدت حزن و غم اور ہلاکت کی وجہ سے اپنے اعمال ناموں کو پڑھنے پر قادر نہ ہوں گے۔