سورة الإسراء - آیت 56

قُلِ ادْعُوا الَّذِينَ زَعَمْتُم مِّن دُونِهِ فَلَا يَمْلِكُونَ كَشْفَ الضُّرِّ عَنكُمْ وَلَا تَحْوِيلًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

کہہ پکارو ان کو جنھیں تم نے اس کے سو اگمان کر رکھا ہے، پس وہ نہ تم سے تکلیف دور کرنے کے مالک ہیں اور نہ بدلنے کے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿قُلِ﴾ ” کہہ دیجیے۔“ یعنی مشرکین سے ان کے اعتقاد کی صحت پر دلیل طلب کرتے ہوئے کہہ دیجیے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے سوا معبود بنا رکھے ہیں، جن کی یہ اسی طرح عبادت کرتے ہیں جس طرح اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جاتی ہے، جن کو یہ اسی طرح پکارتے ہیں جس طرح اللہ تعالیٰ کو پکارتے ہیں۔۔۔ کہ اگر وہ سچے ہیں تو ﴿ادْعُوا الَّذِينَ زَعَمْتُم﴾ ” پکارو تم ان کو جن کو تم گمان کرتے ہو“ یعنی جن کے بارے میں تم اس زعم میں مبتلا ہو کہ وہ معبود ہیں ﴿مِّن دُونِهِ ﴾ ” اللہ کو چھوڑ کر“ پس غور کرو کہ آیا وہ تمہیں کوئی نفع دے سکتے ہیں یا تمہیں کسی نقصان سے بچا سکتے ہیں ۔ ﴿فَلَا يَمْلِكُونَ كَشْفَ الضُّرِّ عَنكُمْ﴾ ” سو وہ نہیں اختیار رکھتے تم سے تکلیف دور کرنے کا“ یعنی یہ خود ساختہ معبود، فقر اور سختی وغیرہ کو بالکل دور نہیں کرسکتے۔ ﴿  وَلَا تَحْوِيلًا﴾ ” اور نہ بدلنے کا“ اور نہ یہ باطل معبود کسی سختی کو کسی ایک شخص سے دوسرے شخص کی طرف منتقل ہی کرسکتے ہیں۔ پس جب ان باطل معبودوں کے یہ اوصاف ہیں تو تم اللہ کے سوا انہیں کس لیے پکارتے ہو؟ یہ کسی کمال کے مالک ہیں نہ افعال نافعہ کے۔ تب ان بے بس اور بے اختیار ہستیوں کے معبود بنانا عقل و دین کی کمی اور رائے کی سفاہت ہے۔ تعجب کی بات تو یہ ہے کہ جب انسان سفاہت میں پڑے رہنے کی وجہ سے اس کا عادی ہوجاتا ہے اور اس کو اپنے گمراہ آباء واجداد سے اخذ کرتا ہے تو اسی سفاہت کو انتہائی درست رائے اور عقل مندی سمجھنے لگتا ہے اور اس کے برعکس اللہ واحد کے لیے۔۔۔ جو تمام ظاہری اور باطنی نعمتیں عطا کرنے والا ہے۔۔۔۔ اخلاص کو سفاہت خیال کرتا ہے۔ یہ کتنا تعجب خیز معاملہ ہے، جیسا کہ مشرکین کا قول ہے : ﴿أَجَعَلَ الْآلِهَةَ إِلَـٰهًا وَاحِدًا ۖ إِنَّ هَـٰذَا لَشَيْءٌ عُجَابٌ﴾(ص :38؍5) کیا اس نے بہت سے معبودوں کو ایک معبود بنا دیا ہے یہ تو بڑی عجیب بات ہے۔ “