وَقُل لِّعِبَادِي يَقُولُوا الَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ۚ إِنَّ الشَّيْطَانَ يَنزَغُ بَيْنَهُمْ ۚ إِنَّ الشَّيْطَانَ كَانَ لِلْإِنسَانِ عَدُوًّا مُّبِينًا
اور میرے بندوں سے کہہ دے وہ بات کہیں جو سب سے اچھی ہو، بے شک شیطان ان کے درمیان جھگڑا ڈالتا ہے۔ بے شک شیطان ہمیشہ سے انسان کا کھلا دشمن ہے۔
یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا اپنے بندوں پر لطف و کرم ہے کہ اس نے انہیں بہتر اخلاق، اعمال اور اقوال کا حکم دیا ہے جو دنیا و آخرت کی سعادت کے موجب ہیں چنانچہ فرمایا : ﴿وَقُل لِّعِبَادِي يَقُولُوا الَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ۚ﴾ ” کہہ دو میرے بندوں سے، بات وہی کہیں جو اچھی ہو۔“ یہ ہر اس کلام کے بارے میں حکم ہے جو اللہ تعالیٰ کے تقرب کا ذریعہ ہے مثلاً قراءت قرآن، ذکر الہٰی، حصول علم، امر بالمعروف، نہی عن المنکر اور لوگوں کے ساتھ ان کے حسب مراتب اور حسب منزلت شیریں کلامی وغیرہ۔ اگر دو اچھے امور درپیش ہوں اور ان دونوں میں جمع و تطبیق ممکن نہ ہو تو ان میں جو بہتر ہو اس کو ترجیح دی جائے اور اچھی بات ہمیشہ خلق جمیل اور عمل صالح کو دعوت دیتی ہے، اس لیے جسے اپنی زبان پر اختیار ہے اس کے تمام معاملات اس کے اختیار میں ہیں۔ ﴿إِنَّ الشَّيْطَانَ يَنزَغُ بَيْنَهُمْ ﴾ ” بے شک شیطان ان کے درمیان جھڑپ کرواتا ہے“ یعنی شیطان بندوں کے دین و دنیا کو خراب کر کے ان کے درمیان فساد پھیلانا چاہتا ہے اور اس فساد کی دوا یہ ہے کہ وہ بری باتوں میں شیطان کی پیروی نہ کریں جن کی طرف شیطان دعوت دیتا رہتا ہے اور آپس میں نرم رویہ اختیار کریں تاکہ شیطان کی ریشہ دوانیوں کا قلع قمع ہو جو ان کے درمیان فساد کا بیج بوتا رہتا ہے، اس لیے کہ شیطان ان کا حقیقی دشمن ہے اور ان پر لازم ہے کہ وہ شیطان کے خلاف مصروف جنگ رہیں۔ اس لیے کہ وہ تو انہیں دعوت دیتا رہتا ہے ﴿ لِيَكُونُوا مِنْ أَصْحَابِ السَّعِيرِ﴾ (فاطر :35؍6)” تاکہ وہ جہنم والے بن جائیں۔“ اگرچہ شیطان ان کے درمیان فساد اور عداوت ڈالنے کی بھر پور کوشش کرتا ہے لیکن اس بارے میں کامل حزم و احتیاط یہ ہے کہ اپنے دشمن شیطان کی مخالفت کی جائے، نفس امارہ کا قلع قمع کیا جائے جس کے راستے سے شیطان داخل ہوتا ہے، اس طرح وہ اپنے رب کی اطاعت کرسکیں گے، ان کا معاملہ درست رہے گا اور راہ ہدایت پالیں گے۔