أَوْ خَلْقًا مِّمَّا يَكْبُرُ فِي صُدُورِكُمْ ۚ فَسَيَقُولُونَ مَن يُعِيدُنَا ۖ قُلِ الَّذِي فَطَرَكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ ۚ فَسَيُنْغِضُونَ إِلَيْكَ رُءُوسَهُمْ وَيَقُولُونَ مَتَىٰ هُوَ ۖ قُلْ عَسَىٰ أَن يَكُونَ قَرِيبًا
یا کوئی ایسی مخلوق جو تمھارے سینوں میں بڑی (معلوم) ہو۔ تو عنقریب وہ کہیں گے کون ہمیں دوبارہ پیدا کرے گا ؟ کہہ دے وہی جس نے تمھیں پہلی بار پیدا کیا، تو ضرور وہ تیری طرف اپنے سر تعجب سے ہلائیں گے اور کہیں گے یہ کب ہوگا ؟ کہہ امید ہے کہ وہ قریب ہو۔
﴿فَسَيَقُولُونَ﴾ ” پس وہ کہیں گے“ یعنی جب آپ زندگی بعد موت کے بارے میں ان پر حجت قائم کرتے ہیں۔ ﴿مَن يُعِيدُنَا ۖ قُلِ الَّذِي فَطَرَكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ ۚ﴾ ” کون لوٹا کر لائے گا ہم کو ؟ کہہ دیجیے ! وہ جس نے تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا۔“ یعنی جب تم کوئی قابل ذکر چیز نہ تھے اس نے تمہیں پیدا کیا اسی طرح وہ تمہیں نئے سرے سے پیدا کرے گا۔ ﴿كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِيدُهُ﴾ (الانبیاء : 104؍21)” جس طرح ہم نے تخلیق کی ابتدا کی تھی اسی طرح ہم تخلیق کا اعادہ کریں گے۔“ ﴿فَسَيُنْغِضُونَ إِلَيْكَ رُءُوسَهُمْ﴾ ” تو (تعجب سے) تمہارے آگے سر ہلائیں گے۔“ یعنی وہ آپ کی بات پر تعجب اور انکار سے سر ہلاتے ہیں ﴿ وَيَقُولُونَ مَتَىٰ هُوَ﴾ ” اور کہتے ہیں کہ یہ کب ہوگا؟“ یعنی مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے کا وقت کب ہوگا جیسا کہ تم کہتے ہو۔ یہ ان کی طرف سے زندگی بعد موت کا اقرار نہیں، بلکہ یہ ان کی سفاہت اور بزعم خود، دلیل میں بے بس کرنا ہے۔ ﴿قُلْ عَسَىٰ أَن يَكُونَ قَرِيبًا ﴾ ” کہہ دیجیے ! شاید یہ نذدیک ہی ہوگا“ اس لیے اس کے وقت کے تعین کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس کا فائدہ اور اس کا دارومدار تو اس کے اقرار، اس کی تحقیق اور اس کے اثبات میں ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح اسے ضرور آنا ہے اس اعتبار سے وہ قریب ہی ہے۔