سورة الإسراء - آیت 49

وَقَالُوا أَإِذَا كُنَّا عِظَامًا وَرُفَاتًا أَإِنَّا لَمَبْعُوثُونَ خَلْقًا جَدِيدًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور انھوں نے کہا کیا جب ہم ہڈیاں اور ریزہ ریزہ ہوجائیں گے تو کیا واقعی ہم ضرور نئے سرے سے پیدا کر کے اٹھائے جانے والے ہیں۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تبارک و تعالیٰ، زندگی بعد موت کا انکار کرنے والوں، اس کو جھٹلانے والوں اور اس کو بعید سمجھنے والوں کا یہ قول نقل کرتا ہے۔ ﴿أَإِذَا كُنَّا عِظَامًا وَرُفَاتًا﴾ ” کیا جب ہم ہوجائیں گے ہڈیاں اور چورا چورا“ یعنی جب ہم بوسیدہ ہوجائیں گے ﴿أَإِنَّا لَمَبْعُوثُونَ خَلْقًا جَدِيدًا﴾ ” کیا پھر ہم اٹھیں گے نئے بن کر ؟“ یعنی ایسا نہیں ہوسکتا ان کے زعم کے مطابق یہ بہت محال ہے۔ پس انہوں نے اللہ تعالیٰ کے رسول کی تکذیب کر کے اور اس کی آیات کو جھٹلا کر سخت جہالت کا ثبوت دیا ہے، خالق کائنات کی قدرت کو اپنی کمزور اور عاجز قدرت پر قیاس کیا ہے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ ایسا کرنا ان کے بس میں نہیں اور وہ اس پر قدرت نہیں رکھتے تو انہوں نے اللہ تعالیٰ کی قدرت کو بھی اسی پر قیاس کرلیا۔ پس پاک ہے وہ ذات جس نے اپنی مخلوق میں سے کچھ لوگوں کو جہالت کی مثال بنایا ہے۔۔۔ اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ بہت عقلمند ہیں، حالانکہ ان کی جہالت سب سے واضح، سب سے نمایاں، دلائل و براہین کے اعتبار سے سب سے روشن اور سب سے بلند ہے۔۔۔ تاکہ وہ اپنے بندوں کو دکھائے کہ یہاں سوائے اس کی توفیق اور اعانت یا ہلاکت اور ضلالت کے کچھ بھی نہیں۔ ﴿  رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً ۚ إِنَّكَ أَنتَ الْوَهَّابُ ﴾ (آل عمران : 3؍8)” اے ہمارے رب ! ہمیں ہدایت بخش دینے کے بعد ہمارے دلوں کو کجی میں مبتلا نہ کر ہمیں اپنی رحمت سے نواز، بے شک تو بہت نوازنے والا ہے۔ “