نَّحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَسْتَمِعُونَ بِهِ إِذْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ وَإِذْ هُمْ نَجْوَىٰ إِذْ يَقُولُ الظَّالِمُونَ إِن تَتَّبِعُونَ إِلَّا رَجُلًا مَّسْحُورًا
ہم اس (نیت) کو زیادہ جاننے والے ہیں جس کے ساتھ وہ اسے غور سے سنتے ہیں، جب وہ تیری طرف کان لگاتے ہیں اور جب وہ سرگوشیاں کرتے ہیں، جب وہ ظالم کہہ رہے ہوتے ہیں کہ تم پیروی نہیں کرتے مگر ایسے آدمی کی جس پر جادو کیا گیا ہے۔
﴿نَّحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَسْتَمِعُونَ بِهِ﴾ ”ہم خوب جانتے ہیں جس واسطے یہ سنتے ہیں“ یعنی ہم نے ان کو قرآن کے استماع کے وقت اس سے فائدہ اٹھانے سے روک دیا ہے کیونکہ ہم ان کے برے ارادوں کا علم رکھتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ کوئی چھوٹی سی بات ہی ہاتھ آئے تاکہ اس کے ذریعے سے اس میں عیب جوئی کریں۔ ان کا قرآن سننا طلب ہدایت اور قبول حق کے لیے نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس وہ تو اس کی عدم اطاعت کا تہیہ کئے ہوئے ہیں اور جن کا یہ حال ہو تو استماع قرآن ان کو کوئی فائدہ نہیں دیتا، اس لیے فرمایا : ﴿إِذْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ وَإِذْ هُمْ نَجْوَىٰ﴾ ” جب وہ کان لگاتے ہیں آپ کی طرف اور جب وہ مشاورت کرتے ہیں“ یعنی جب وہ ایک دوسرے کے ساتھ سرگوشی کرتے ہیں۔ ﴿إِذْ يَقُولُ الظَّالِمُونَ﴾ ” جب کہ ظالم کہتے ہیں“ اپنی سرگوشیوں میں : ﴿ إِن تَتَّبِعُونَ إِلَّا رَجُلًا مَّسْحُورًا ﴾ ” جس کی تم پیروی کرتے ہو، وہ تو ایک سحر زدہ آدمی ہے۔“ پس جب ان کی باہمی سرگوشی اس طرح کی بے انصافی پر مبنی ہوتی تھی جس کی بنیاد اس امر پر تھی کہ یہ شخص جادو زدہ ہے تو اس لیے وہ اس کے قول کا اعتبار نہیں کرتے اور سمجھتے تھے کہ یہ شخص نا معقول باتیں کرتا ہے اور اسے خود بھی معلوم نہیں کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔