سورة الإسراء - آیت 40

أَفَأَصْفَاكُمْ رَبُّكُم بِالْبَنِينَ وَاتَّخَذَ مِنَ الْمَلَائِكَةِ إِنَاثًا ۚ إِنَّكُمْ لَتَقُولُونَ قَوْلًا عَظِيمًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

پھر کیا تمھارے رب نے تمھیں بیٹوں کے ساتھ چن لیا اور خود فرشتوں میں سے بیٹیاں بنا لی ہیں؟ بے شک تم یقیناً ایک بہت بڑی بات کہہ رہے ہو۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

یہ اس شخص پر نہایت شدت سے نکیر ہے جس کا نظریہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے بعض ہستیوں کو اپنی بیٹیاں بنا لیا ہے بنا بریں فرمایا : ﴿ أَفَأَصْفَاكُمْ رَبُّكُم بِالْبَنِينَ﴾ ’’کیا تمہارے رب نے تم کو لڑکے دیے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے چن کر تمہارے لئے کامل ترین حصہ مقرر کردیا اور خود فرشتوں کو اپنی بیٹیاں بنا لیا۔۔۔ کیونکہ مشرکین کا یہ خیال تھا کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ ﴿ إِنَّكُمْ لَتَقُولُونَ قَوْلًا عَظِيمًا﴾ ’’بے شک تم کہتے ہو بھاری بات۔‘‘ تمہارا یہ قول اللہ تعالیٰ کی جناب میں بہت بڑی جسارت ہے کیونکہ تم نے اللہ تعالیٰ کی طرف اولاد منسوب کردی۔ تمہارا قول اس بات کو متضمن ہے کہ اللہ تعالیٰ محتاج ہے اور اس کی کچھ مخلوق اس سے بے نیاز ہے اور تم نے اللہ تعالیٰ کے حق میں اولاد کی دونوں قسموں میں سے زیادہ ردی قسم کا فیصلہ کیا یعنی تم نے اس کی طرف بیٹیوں کو منسوب کردیا، حالانکہ اس نے تمہیں پیدا کیا اور تمہیں بیٹے عطا کئے۔ پس بہت بلند ہے اللہ تعالیٰ اس بات سے جو یہ ظالم کہتے ہیں۔