سورة الإسراء - آیت 28

وَإِمَّا تُعْرِضَنَّ عَنْهُمُ ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ مِّن رَّبِّكَ تَرْجُوهَا فَقُل لَّهُمْ قَوْلًا مَّيْسُورًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور اگر کبھی تو ان سے بے توجہی کر ہی لے، اپنے رب کی کسی رحمت کی تلاش کی وجہ سے، جس کی تو امید رکھتا ہو تو ان سے وہ بات کہہ جس میں آسانی ہو۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

پس فرمایا : ﴿وَإِمَّا تُعْرِضَنَّ عَنْهُمُ ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ مِّن رَّبِّكَ تَرْجُوهَا ﴾ ’’اگر تو اعراض کرے ان سے اپنے رب کی مہربانی کے انتظار میں جس کی تجھ کو امید ہے‘‘ یعنی اگر تم ان کو عطا نہیں کرتے اور تم اس کو کسی ایسے وقت کے لئے اٹھا رکھتے ہو جب اللہ تمہیں خوشحالی عطا کرے۔ ﴿فَقُل لَّهُمْ قَوْلًا مَّيْسُورًا﴾ ’’تو کہہ ان کو نرم بات‘‘ یعنی ان سے نرم لہجے میں بات کرو اور اچھا وعدہ کہ جب بھی گنجائش ہوئی تو ان کو عطا کیا جائے گا اور اس وقت عطا کرنا ممکن نہ ہونے پر ان سے معذرت کرے تاکہ جب وہ تمہارے پاس سے واپس جائیں تو ان کے دل مطمئن ہوں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ قَوْلٌ مَّعْرُوفٌ وَمَغْفِرَةٌ خَيْرٌ مِّن صَدَقَةٍ يَتْبَعُهَا أَذًى﴾ (البقرۃ : 2؍263) ’’صدقہ دینے کے بعد ایذا پہنچانے سے تو یہ بہتر ہے کہ نرم بات کہہ دی جائے اور کسی ناگوار بات پر چشم پوشی کی جائے۔‘‘ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر لطف و کرم ہے کہ اس نے ان کو رحمت اور رزق کا انتظار کرنے کا حکم دیا ہے کیونکہ یہ انتظار عبادت ہے۔ اسی طرح ضرورت مندوں کے ساتھ گنجائش اور فراخدستی کے وقت عطا کرنے کا وعدہ کرنا بھی عبادت ہے کیونکہ نیک کام کا ارادہ بھی نیکی ہے۔ اس لئے انسان کو چاہیے کہ مقدور بھر نیکی کرتا رہے اور جس نیک کام پر اسے قدرت نہیں اسے کرنے کی نیت رکھے تاکہ اسے ثواب ملتا رہے اور شاید اللہ تعالیٰ اس کی امید کے سبب سے اس کے لئے آسانی پیدا کر دے۔