وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا
اور رحم دلی سے ان کے لیے تواضع کا بازو جھکادے اور کہہ اے میرے رب! ان دونوں پر رحم کر جیسے انھوں نے چھوٹا ہونے کی حالت میں مجھے پالا۔
﴿وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ﴾ ’’اور جھکا دے ان کے آگے کندھے عاجزی کے، نیاز مندی سے‘‘ یعنی ان کے سامنے تواضع، انکساری اور شفقت کا اظہار کرتے ہوئے جھک کر رہو۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ سے اجر کی امید پر ہو نہ کہ ان سے ڈر کی بنا پر یا ان کے مال وغیرہ کے لالچ کی وجہ سے یا اس قسم کے دیگر مقاصد کی بنا پر جن پر بندے کو اجر نہیں ملتا۔ ﴿وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا﴾ ’’اور کہہ، اے رب ان پر رحم فرما‘‘ یعنی ان کی زندگی میں اور ان کے وفات پا جانے کے بعد ان کے لئے رحمت کی دعا کرو۔ انہوں نے بچپن میں تمہاری جو تربیت کی ہے یہ اس کا بدلہ ہے۔ اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ تربیت جتنی زیادہ ہوگی والدین کا حق بھی اتنا ہی زیادہ ہوجائے گا۔ اسی طرح والدین کے سوا کوئی شخص دینی اور دنیاوی امور میں کسی کی نیک تربیت کرتا ہے تو تربیت کرنے والے شخص کا اس شخص پر حق ہے جس کی اس نے تربیت کی ہے۔