سورة الإسراء - آیت 15

مَّنِ اهْتَدَىٰ فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ ۖ وَمَن ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا ۚ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ۗ وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّىٰ نَبْعَثَ رَسُولًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

جس نے ہدایت پائی تو وہ اپنی ہی جان کے لیے ہدایت پاتا ہے اور جو گمراہ ہوا تو اسی پر گمراہ ہوتا ہے اور کوئی بوجھ اٹھانے والی (جان) کسی دوسری (جان) کا بوجھ نہیں اٹھاتی اور ہم کبھی عذاب دینے والے نہیں، یہاں تک کہ کوئی پیغام پہنچانے والا بھیجیں۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

یعنی ہر نفس کی ہدایت اور گمراہی خود اس کے لئے ہے کوئی شخص کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا اور نہ ذرہ بھر تکلیف اس سے دور ہٹا سکے گا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سب سے بڑا عادل ہے وہ اس وقت تک کسی کو عذاب نہیں دے گا جب تک کہ اس پر رسالت کی حجت قائم نہ ہوجائے اور یہ ثابت نہ ہوجائے کہ اس نے اس حجت کے ساتھ عناد کا مظاہرہ کیا۔ رہا وہ شخص جس نے رسالت کی اس حجت کے سامنے سر تسلیم خم کردیا، یا اس کے پاس حجت پہنچی ہی نہیں، تو اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو عذاب نہیں دے گا۔ اس آیت کریمہ سے استدلال کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اہل فترات (یعنی اس زمانے یا علاقے کے لوگ جن تک نبوت نہیں پہنچی) اور مشرکین کے بچوں کو عذاب نہیں دے گا جب تک کہ ان کی طرف رسول نہ بھیج لے کیونکہ وہ ظلم سے پاک اور منزہ ہے۔