سورة البقرة - آیت 195

وَأَنفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ ۛ وَأَحْسِنُوا ۛ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور اللہ کے راستے میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں کو ہلاکت کی طرف مت ڈالو اور نیکی کرو، بے شک اللہ نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اپنے راستے میں مال خرچ کرنے کا حکم دیتا ہے اور اس سے مراد ہے کہ مال کو ان راستوں میں خرچ کیا جائے جو اللہ تعالیٰ تک پہنچاتے ہیں اور یہ بھلائی کے تمام راستے ہیں جیسے مساکین، قریبی رشتہ داروں پر صدقہ کرنا اور ان لوگوں پر خرچ کرنا جن پر خرچ کرنا واجب ہے۔ ان راستوں میں سب سے بڑا اور ان میں سب سے پہلے نمبر پر آنے والا، فی سبیل اللہ یعنی جہاد کی راہ میں خرچ کرنا ہے، کیونکہ اس راہ میں خرچ کرنا جہاد بالمال کے زمرے میں آتا ہے اور مالی جہاد بھی اسی طرح فرض ہے جس طرح بدنی جہاد فرض ہے۔ مالی جہاد میں عظیم مصالح پنہاں ہیں۔ مالی جہاد سے اہل ایمان کو تقویت پہنچتی ہے، شرک اور اہل شرک کمزور ہوتے ہیں اور اقامت دین اور اس کی سربلندی میں مدد ملتی ہے۔ پس جہاد فی سبیل اللہ کا درخت مالی اعانت کے تنے کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا، جہاد کے لئے مالی اخراجات وہی حیثیت رکھتے ہیں جو بدن کے لیے روح، پس اس کے بغیر جہاد کا جاری رہنا ممکن نہیں اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنے سے گریز درحقیقت جہاد کا ابطال، دشمنوں کا تسلط اور ان کی اسلام دشمنی میں اضافہ ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّہْلُکَۃِ﴾ ” اپنے ہاتھوں (جان) کو ہلاکت میں نہ ڈالو“ اس حکم کی علت کی حیثیت رکھتا ہے اور اپنے ہاتھوں سے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا دو امور کی طرف راجع ہے۔ (١) اس امر کو ترک کردینا جس کا حکم بندے کو دیا گیا جبکہ اس امر کو ترک کرنا بدن یا روح کی ہلاکت کا یا ہلاکت کے قریب کرنے کا موجب ہو۔ (٢) ایسے فعل کا ارتکاب کرنا جو بدن یا روح کی ہلاکت کا سبب ہو۔ اس کے تحت بہت سے امور آتےہیں: (١) اللہ تعالیٰ کے راستے میں بدنی یا مالی جہاد ترک کرد ینا، جو دشمن کے تسلط کا باعث بنتا ہے۔ (٢) انسان کا خود اپنے آپ کو موت کے منہ میں لے جانا، مثلاً کسی لڑائی میں گھس جانا، کسی خوفناک سفر پر روانہ ہوجانا، جانتے بوجھتے درندوں یا سانپوں کے مسکن میں داخل ہونا، کسی خطرناک درخت یا گرنے والی عمارت وغیرہ پر چڑھنا یا کسی خطرناک چیز کے نیچے چلے جانا یہ تمام امور اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے کے تحت آتے ہیں۔ (٣) توبہ سے مایوس ہو کر گناہوں پر قائم رہنا۔ (٤) ان فرائض کو ترک کرنا جن کو اللہ تعالیٰ نے بجا لانے کا حکم دیا ہے اور جن کے ترک کرنے میں روح اور دین کی ہلاکت ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنا احسان کی ایک قسم ہے، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے عمومی طور پر احسان کا حکم دیتے ہوئے فرمایا : ﴿ وَاَحْسِنُوْا اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ ﴾” اور احسان کرو، یقیناً اللہ احسان کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے“ اس آیت کے معنی میں ہر قسم کا احسان شامل ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے کسی صفت اور شرط وغیرہ سے مقید نہیں کیا۔ پس اس میں مالی احسان بھی شامل ہے۔ اپنے جاہ و منصب کی بنیاد پر (کسی حق دار کی) سفارش کرنے کا احسان بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔ امر بالمعروف، نہی عن المنکر اور علم نافع کی تعلیم بھی احسان میں داخل ہے۔ لوگوں کی ضروریات پوری کرنا، ان کی تکالیف کو دور کرنا، ان کی مصیبتوں کا ازالہ کرنا، ان کے مریضوں کی عیادت کرنا، ان کے جنازوں کے ساتھ جانا، ان کے بھٹکے ہوؤں کو راستہ بتانا، کسی کے کام میں ہاتھ بٹانا اور کسی ایسے شخص کے لئے کام کردینا جسے کام نہ آتا ہو۔ یہ تمام امور اس احسان کے زمرے میں شمار ہوتے ہیں جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور اس احسان میں اللہ تعالیٰ کی عبادت احسن طریقے سے کرنا بھی داخل ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ﴿أنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأنَّكَ تَراهُ، فإنْ لَمْ تَكُنْ تَراهُ فإنَّه يَراكَ﴾” احسان یہ ہے کہ تو اس طرح اللہ کی عبادت کرے گویا کہ تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر یہ کیفیت پیدا نہ ہو کہ تو اسے دیکھ رہا ہے تب وہ تو تجھے دیکھ رہا ہے۔‘،[صحيح بخاري، الإيمان، باب سؤال جبريل......الخ، حديث: 50] جو کوئی ان صفات سے متصف ہوجاتا ہے وہ ان لوگوں میں شامل ہوجاتا ہے جن کے بارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿  لِّلَّذِينَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَىٰ وَزِيَادَةٌ  ﴾(یونس: 26؍10) ” جنہوں نے نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے (اور مزید برآں) اور بھی۔“ اللہ تعالیٰ کی معیت اسے حاصل رہتی ہے، اللہ تعالیٰ اسے دوست رکھتا ہے، اس کی راہنمائی کرتا ہے اور ہر معاملے میں اس کی مدد کرتا ہے۔ اور جب اللہ روزے اور جہاد کے احکام کا ذکر فرما چکا، تو اب حج کے احکام کا ذکر فرماتا ہے۔