الشَّهْرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمَاتُ قِصَاصٌ ۚ فَمَنِ اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ
حرمت والا مہینا حرمت والے مہینے کے بدلے ہے اور سب حرمتیں ایک دوسری کا بدلہ ہیں۔ پس جو تم پر زیادتی کرے سو تم اس پر زیادتی کرو، اس کی مثل جو اس نے تم پر زیادتی کی ہے اور اللہ سے ڈرو اور جان لو کہ بے شک اللہ ڈرنے والوں کے ساتھ ہے۔
﴿ اَلشَّہْرُ الْحَرَامُ بِالشَّہْرِ الْحَرَامِ ﴾” حرمت والا مہینہ، حرمت والے مہینے کے بدلے میں ہے“ اس آیت میں اس مفہوم کا احتمال ہے کہ اس سے مراد یہ واقعہ ہو کہ جب صلح حدیبیہ والے سال کفار نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مکہ مکرمہ میں داخل ہونے سے روک دیا تھا اور ان سے یہ معاہدہ کیا تھا کہ وہ اگلے سال مکہ مکرمہ آئیں گے، تو مسجد حرام میں داخل ہونے سے روکنے کا واقعہ اور عمرہ قضا دونوں حرمت والے مہینے (ذوالقعدہ) میں پیش آئے۔ اس لیے حرام مہینے کے مقابلے میں حرام مہینے کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اس مفہوم کی رو سے اس آیت کریمہ میں صحابہ کرام کے مناسب کی تکمیل کی خبر دے کر ان کی دل جوئی کی ہے، دوسرا احتمال یہ ہے کہ تم نے اگر ان کے ساتھ حرمت والے مہینے میں لڑائی کی ہے تو (کیا ہوا) انہوں نے بھی تو تم سے حرمت والے مہینے ہی میں لڑائی کی ہے اس لئے حد سے تجاوز کرنے والے تو وہی کفار مکہ ہیں (تمہیں تو مجبوراً لڑنا پڑا ہے) پس تمہارے لئے اس میں کوئی حرج نہیں۔ اس اعتبار سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿ وَالْحُرُمٰتُ قِصَاصٌ ۭ﴾”اور حرمتوں میں بدلہ ہے“ عام کا عطف خاص پر،کے باب سے ہوگا، یعنی ہر وہ چیز جو قابل احترام ہے، وہ حرمت والا مہینہ ہو یا حرمت والا شہر ہو یا احرام ہو یا اس سے بھی زیادہ عام ہو، یعنی ہر وہ چیز جس کی حرمت کا حکم شریعت نے دیا ہے، جو کوئی ان کی بے حرمتی کی جرأت کرے گا، اس سے قصاص لیا جائے گا۔ پس جو کوئی حرام مہینے میں لڑائی کرے گا اس کے ساتھ لڑائی کی جائے گی جو کوئی اس محترم شہر کی بے حرمتی کرے گا اس پر حد جاری کی جائے گی اور اس کا کوئی احترام نہیں۔ جو کوئی بدلہ لینے کے لئے (حرم شریف کے اندر) کسی کو قتل کرے گا اسے قتل کیا جائے گا جو کسی کو زخمی کرے گا یا اس کا کوئی عضو کاٹے گا، اس کا اس سے قصاص لیا جائے گا۔ جو کوئی بلا جواز کسی کا مال لے گا، اس سے اس کا بدلہ لیا جائے گا۔ البتہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا صاحب حق کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ مال میں سے اپنے مال کے بقدر مال لے لے؟ اس بارے میں اہل علم میں اختلاف ہے اس میں راجح مسلک یہ ہے کہ اگر حق کا سبب واضح ہوجیسے مہمان جب کہ دوسرے شخص نے اس کی مہمان نوازی نہ کی ہو، بیوی اور وہ قریبی رشتہ دار جن کا نفقہ جس کے ذمہ فرض ہو، وہ نفقہ اور کفالت سے انکار کر دے، تو اس کے مال میں سے بقدر حق مال لے لینا جائز ہے۔ اور اگر حق کا سبب خفی اور غیر واضح ہو، مثلاً کوئی شخص کسی کے قرض کا انکار کردیتا ہے کہ اس نے قرض لیا ہی نہیں یا کسی امانت میں خیانت کرتا ہے، یا اس میں سے چوری کرلیتا ہے وغیرہ، تو اس صورت میں مال لینا جائز نہیں ہے۔ اس طرح دلائل میں تطبیق ہوجاتی ہے اور تعارض نہیں رہتا۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے گزشتہ حکم کی تاکید اور تقویت کے لئے فرمایا ﴿فَمَنِ اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ ۠﴾” جو تم پر زیادتی کرے، تو تم بھی اس پر اس کی مثال زیادتی کرو جو اس نے تم پر کی“ یہ بدلہ لینے کی صفت کی تفسیر ہے۔ نیز یہ کہ یہ تعدی کا ارتکاب کرنے والے کی تعدی اور ظلم کی مماثلت ہے۔ چونکہ غالب حالات میں، اگر نفوس انسانی کو (اپنے ساتھ زیادتی کے بدلے میں) سزا دینے کی رخصت دے دی جائے، تو وہ اپنی تشفی اور تسکین کے لئے جائز حد پر نہیں رکتے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کو التزام تقویٰ کا حکم دیا جو کہ نام ہے اللہ تعالیٰ کی حدود پر ٹھہر جانے اور ان سے تجاوز نہ کرنے کا اور ان کو بتلایا کہ ﴿ اَنَّ اللّٰہَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ﴾ ” اللہ تعالیٰ اہل تقویٰ کے ساتھ ہے“ یعنی اللہ کی مدد و نصرت اور اس کی تائید و توفیق ان کے ساتھ ہے اور جسے اللہ تعالیٰ کی معیت حاصل ہوگئی، وہ ابدی سعادت سے سرفراز ہوگیا اور جس نے تقویٰ کا التزام نہ کیا تو اس کا سرپرست اس سے علیحدہ ہوگیا، اسے بے یارو مددگار چھوڑ دیا اور اسے اس کے نفس کے حوالے کردیا، تب اس کی ہلاکت اس کی رگ جان سے بھی زیادہ قریب ہوجاتی ہے۔