مَا عِندَكُمْ يَنفَدُ ۖ وَمَا عِندَ اللَّهِ بَاقٍ ۗ وَلَنَجْزِيَنَّ الَّذِينَ صَبَرُوا أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
جو کچھ تمھارے پاس ہے وہ ختم ہوجائے گا اور جو اللہ کے پاس ہے وہ باقی رہنے والا ہے اور یقیناً ہم ان لوگوں کو جنھوں نے صبر کیا، ضرور ان کا اجر بدلے میں دیں گے، ان بہترین اعمال کے مطابق جو وہ کیا کرتے تھے۔
اس آیت کریمہ میں زہد اور دنیا سے بے رغبتی کی ترغیب دی گئی ہے، خاص طور پر زہد متعین اور اس سے مراد ان چیزوں میں بے رغبتی اور ان سے پہلو بچانا ہے جو بندے کے لئے ضرر رساں ہیں اور اس بات کی موجب ہیں کہ بندہ اللہ تعالیٰ کی واجب کی ہوئی چیزوں کو چھوڑ کر ان دنیاوی چیزوں میں مشغول ہوجائے اور حقوق اللہ پر ان دنیاوی چیزوں کو ترجیح دینے لگے، اس لئے کہ یہ زہد فرض ہے۔ زہد کے اسباب میں سے ایک داعیہ (سبب) یہ ہے کہ بندہ دنیا کی ناپائیدار لذات اور شہوات کا آخرت کی بھلائیوں کے ساتھ تقابل کرے۔ وہ ان کے درمیان بہت بڑا فرق اور تفاوت پائے گا اور یہ تفاوت اسے بلند تر چیز کو ترجیح دینے پر آمادہ کرے گا۔ اور عبادات مثلاً نماز، روزے اور ذکر اذکار وغیرہ پر توجہ مرکوز کرکے دنیا سے منقطع ہوجانا، زہد ممدوح نہیں ہے بلکہ صحیح معنوں میں زاہد بننا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ بندہ مقدور بھر شریعت کے ظاہری اور باطنی احکام کی تعمیل نہ کرے اور قول و فعل کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے دین کی دعوت نہ دے۔ پس حقیقی زہد یہ ہے کہ بندہ ہر چیز سے منہ موڑ لے جس کا دین و دنیا میں کوئی فائدہ نہیں اور ہر اس چیز کے حصول کے لئے رغبت کے ساتھ کوشش کرے جو دین و دنیا میں فائدہ مند ہے۔ ﴿وَلَنَجْزِيَنَّ الَّذِينَ صَبَرُوا ﴾ ” اور ہم بدلے میں دیں گے صبر کرنے والوں کو“ یعنی جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کر کے اور اس کی نافرمانی سے باز رہ کر صبر کرتے ہیں اور دنیاوی شہوات سے منہ موڑ لیتے ہیں جو ان کے دین کے لئے مضر ہیں۔ ﴿أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴾ ” ان کے اعمال کا نہایت اچھا بدلہ۔“ یعنی نیکی کا اجر دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک ہے بلکہ اس سے بھی کئی گنا زیادہ تک۔ کیونکہ جو کوئی نیک کام کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔