وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِن كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيدًا ثُمَّ لَا يُؤْذَنُ لِلَّذِينَ كَفَرُوا وَلَا هُمْ يُسْتَعْتَبُونَ
اور جس دن ہم ہر امت میں سے ایک گواہ کھڑا کریں گے، پھر ان لوگوں کے لیے جنھوں نے کفر کیا، نہ اجازت دی جائے گی اور نہ ان سے معافی کی درخواست لی جائے گی۔
اللہ تبارک و تعالیٰ قیامت کے روز کفار کے حال کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے کہ اس روز ان سے کوئی عذر قبول کیا جائے گا نہ ان سے عذاب کو رفع کیا جائے گا اور ان کے ٹھہرائے ہوئے شریک ان سے بیزاری کا اظہار کریں گے اور وہ اقرار کریں گے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر اور اس پر افترا پردازی کیا کرتے تھے، چنانچہ فرمایا : ﴿وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِن كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيدًا ﴾ ” اور جس دن کھڑا کریں گے ہم ہر امت میں سے ایک گواہی دینے والا“ جو ان کے اعمال پر گواہی دے گا کہ انہوں نے داعی ہدایت کو کیا جواب دیا تھا اور یہ گواہ جس کو اللہ گواہی کے لئے کھڑا کرے گا، وہ سب سے پاک اور سب سے عادل گواہ ہوگا اور یہ گواہ رسول ہی ہوں گے۔ جب وہ گواہی دیں گے تو لوگوں کے خلاف فیصلہ مکمل ہوجائے گا۔ ﴿ثُمَّ لَا يُؤْذَنُ لِلَّذِينَ كَفَرُوا ﴾ ” پھر کافروں کو اجازت نہیں دی جائے گی“ یعنی کفار کو معذرت پیش کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی کیونکہ ان کو اپنے موقف کے بطلان کے معلوم ہونے کے بعد ان کا عذر، محض جھوٹا ہوگا، جو ان کو کچھ فائدہ نہ دے گا۔ اگر وہ دنیا میں واپس جانا چاہیں گے تاکہ وہ اپنے گناہوں کی تلافی کرسکیں تو انہیں واپس جانے کی اجازت ملے گی نہ ان سے ناراضی کو دور کیا جائے گا بلکہ جب وہ عذاب کو دیکھ لیں گے تو ان کو جلدی سے عذاب میں دھکیل دیا جائے گا، وہ عذاب جس میں کوئی تخفیف کی جائے گی نہ ان کو کوئی ڈھیل دی جائے گی نہ مہلت، کیونکہ ان کے دامن میں کوئی نیکی نہ ہوگی ان کے اعمال کو شمار کر کے ان کے سامنے کیا جائے گا وہ اس کا اقرار کریں گے اور شرمسار ہوں گے۔