سورة النحل - آیت 75

ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا عَبْدًا مَّمْلُوكًا لَّا يَقْدِرُ عَلَىٰ شَيْءٍ وَمَن رَّزَقْنَاهُ مِنَّا رِزْقًا حَسَنًا فَهُوَ يُنفِقُ مِنْهُ سِرًّا وَجَهْرًا ۖ هَلْ يَسْتَوُونَ ۚ الْحَمْدُ لِلَّهِ ۚ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اللہ نے ایک مثال بیان کی، ایک غلام ہے جو کسی کی ملکیت ہے، کسی چیز پر قدرت نہیں رکھتا اور وہ شخص جسے ہم نے اپنی طرف سے اچھا رزق دیا ہے تو وہ اس میں سے پوشیدہ اور کھلم کھلا خرچ کرتا ہے، کیا وہ برابر ہیں؟ سب تعریف اللہ کے لیے ہے، بلکہ ان کے اکثر نہیں جانتے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

پہلی مثال ایک غلام کی ہے جو کسی دوسرے کی غلامی میں ہے جو مال کا مالک ہے نہ دنیا کی کسی چیز کا جبکہ دوسرا ایک آزاد اور دولت مندشخص ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے مال کی تمام اصناف میں سے بہترین رزق سے نوازا ہے وہ سخی اور بھلائی کو پسند کرنے والا شخص ہے۔ وہ اس مال میں سے کھلے چھپے خرچ کرتا ہے۔ کیا یہ مرد آزاد اور وہ غلام برابر ہوسکتے ہیں؟ حالانکہ یہ دونوں مخلوق ہیں اور ان کے درمیان مساوات محال نہیں ہے۔ پس جب یہ دونوں مخلوق ہوتے ہوئے برابر نہیں ہوسکتے، تو ایک مخلوق اور غلام ہستی، جو کسی چیز کی مالک ہے نہ کوئی قدرت اور اختیار رکھتی ہے بلکہ وہ ہر لحاظ سے محتاج ہے، رب تعالیٰ کے برابر کیسے ہوسکتی ہے جو تمام سلطنتوں کا مالک اور ہر چیز پر قادر ہے؟ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے اپنی تعریف کی اور حمد و ستائش کی تمام انواع سے اپنے آپ کو متصف کرتے ہوئے فرمایا : ﴿الْحَمْدُ لِلّٰـهِ﴾ ” تمام تعریف اللہ کے لئے ہے“ گویا کہ یوں کہا گیا کہ جب معاملہ یہ ہے تو مشرکین نے اپنے خود ساختہ معبودوں کو اللہ تعالیٰ کے برابر کیوں ٹھہرا دیا؟ اور اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ ﴾ ” بلکہ ان کے اکثر لوگ علم نہیں رکھتے“ پس اگر انہیں حقیقت کا علم ہوتا تو وہ اس شرک عظیم کے ارتکاب کی کبھی جرات نہ کرتے۔