وَمَا لَنَا أَلَّا نَتَوَكَّلَ عَلَى اللَّهِ وَقَدْ هَدَانَا سُبُلَنَا ۚ وَلَنَصْبِرَنَّ عَلَىٰ مَا آذَيْتُمُونَا ۚ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ
اور ہمیں کیا ہے کہ ہم اللہ پر بھروسا نہ کریں، حالانکہ اس نے ہمیں ہمارے راستے دکھا دیے ہیں اور ہم ہر صورت اس پر صبر کریں گے جو تم ہمیں تکلیف پہنچاؤ گے اور اللہ ہی پر پس لازم ہے کہ بھروسا کرنے والے بھروسا کریں۔
﴿وَمَا لَنَا أَلَّا نَتَوَكَّلَ عَلَى اللَّـهِ وَقَدْ هَدَانَا سُبُلَنَا﴾ ” اور ہم کو کیا ہوا کہ ہم اللہ پر بھروسہ نہ کریں اور وہ سجھاچکا ہمیں ہماری راہیں“ یعنی کون سی چیز ہمیں اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے سے روک سکتی ہے۔ حالانکہ ہم واضح حق اور ہدایت پر ہیں اور جو کوئی حق اور ہدایت کی راہ پر گامزن ہوتا ہے تو یہ ہدایت اس کے لئے توکل کی تکمیل کی موجب بنتی ہے۔ اسی طرح یہ معلوم ہونا کہ، اللہ تعالیٰ راہ ہدایت پر چلنے والے کے بوجھ کی کفالت کرتا اور اس کے لئے کافی ہوجاتا ہے، توکل کی دعوت دیتا ہے۔ اس کے برعکس جو کوئی حق اور ہدایت کی راہ اختیار نہیں کرتا تو اللہ تعالیٰ اس کی کفالت و کفایت کا ضامن نہیں ہوتا، پس اس کا حال متوکل کے حال کے برعکس ہوتا ہے۔ اس آیت کریمہ میں، انبیاء ومرسلین کی طرف سے گویا اپنی قوم کے لئے ایک عظیم معجزے کی طرف اشارہ ہے اور اس کی تفصیل یہ ہے کہ انبیاء کی قوم غالب حالات میں، اقتدار اور غلبہ کی مالک ہوتی ہے۔ اس کے رسول ان کو مقابلے کی دعوت دیتے ہوئے کہتے تھے کہ وہ ان کی چالوں اور سازشوں کو ناکام کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہیں اور انہیں اللہ تعالیٰ کی کفایت کا پورا یقین ہے اور کفار کی انبیاء ومرسلین کی بیخ کنی کی خواہش اور نورحق کو بجھانے کی حرص کے باوجود، اللہ نے انبیاء ومرسلین کی کفایت کی اور انہیں کفار کے مکروکید سے بچایا۔ یہ جناب نوح علیہ السلام کے اس قول کی مانند ہے جو انہوں نے اپنی قوم سے کہا تھا : ﴿يَا قَوْمِ إِن كَانَ كَبُرَ عَلَيْكُم مَّقَامِي وَتَذْكِيرِي بِآيَاتِ اللَّـهِ فَعَلَى اللَّـهِ تَوَكَّلْتُ فَأَجْمِعُوا أَمْرَكُمْ وَشُرَكَاءَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُنْ أَمْرُكُمْ عَلَيْكُمْ غُمَّةً ثُمَّ اقْضُوا إِلَيَّ وَلَا تُنظِرُونِ ﴾ ( : یونس : 10؍ 71) ” اے میری قوم ! اگر تمہارے درمیان میرا قیام اور اللہ تعالیٰ کی آیات کے ذریعے تمہیں میرا نصیحت کرنا تم پر گراں گزرتا ہے، تو میرا توکل اللہ پر ہے، پس تم اپنے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کو ساتھ لے کر ایک فیصلے پر متفق ہوجاؤ اور تمہارے اس فیصلے کا کوئی پہلو تم پر پوشیدہ نہ رہے پھر میرے خلاف جو کچھ کرنا چاہو کر گزرو اور مجھے کوئی مہلت نہ دو۔“ اسی طرح ہود علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا تھا : ﴿إِنِّي أُشْهِدُ اللَّـهَ وَاشْهَدُوا أَنِّي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ مِن دُونِهِ ۖ فَكِيدُونِي جَمِيعًا ثُمَّ لَا تُنظِرُونِ﴾ (ھود : 11؍ 54، 55)” میں اللہ کو گواہ بناتا ہوں اور تم بھی گواہ رہو کہ تم نے جو اللہ کے شریک ٹھہرا رکھے ہیں میں ان سے بیزار ہوں، پس تم سب مل کر میرے خلاف چال چل لو اور مجھے ہرگز مہلت نہ دو۔ “ ﴿ وَلَنَصْبِرَنَّ عَلَىٰ مَا آذَيْتُمُونَا ۚ﴾ ” اور ہم ضرور ان تکلیفوں پر صبر کریں گے جو تم ہمیں دو گے“ یعنی ہم تمہیں حق کی دعوت دیتے اور تمہیں وعظ و نصیحت کرتے رہیں گے اور تمہاری طرف سے ہمیں جو تکلیف پہنچے گی ہم اس کی پروانہ کریں گے، ہم اللہ تعالیٰ سے اجر کی امید رکھتے ہیں اور تمہاری خیرخواہی کرتے ہوئے اپنے آپ کو تمہاری اذیتوں کا عادی بنائیں گے۔ شاید کثرت نصیحت کی بنا پر اللہ تعالیٰ تمہیں ہدایت سے نواز دے۔ ﴿وَعَلَى اللَّـهِ﴾ ” اور صرف اللہ پر“ اور اللہ تعالیٰ کے سوا کسی پر نہیں، ﴿فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ﴾ ” چاہیے کہ بھروسہ کریں بھروسہ کرنے والے۔‘‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ پر توکل ہر بھلائی کی کنجی ہے۔۔۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ انبیاء ومرسلین توکل کے بہترین مطالب اور بلند ترین مراتب پر فائز ہیں اور وہ ہے اقامت دین میں، اللہ تعالیٰ کی مدد میں، اس کے بندوں کی راہنمائی اور ان سے گمراہی کے ازالے میں اللہ تعالیٰ پر توکل کرنا اور یہ کامل ترین توکل ہے۔