وَيَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَسْتَ مُرْسَلًا ۚ قُلْ كَفَىٰ بِاللَّهِ شَهِيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ وَمَنْ عِندَهُ عِلْمُ الْكِتَابِ
اور وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، کہتے ہیں تو کسی طرح رسول نہیں ہے۔ کہہ دے میرے درمیان اور تمھارے درمیان اللہ کافی گواہ ہے اور وہ شخص بھی جس کے پاس کتاب کا علم ہے۔
﴿وَيَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَسْتَ مُرْسَلًا ۚ﴾ ” اور کافر کہتے ہیں کہ آپ بھیجے ہوئے نہیں ہیں“ یعنی کفار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اور اس حق کی تکذیب کرتے ہیں جس کے ساتھ آپ کو مبعوث کیا گیا ہے ﴿ قُلْ﴾ اگر وہ آپ سے گواہ طلب کریں تو ان سے کہہ دیجیے ﴿كَفَىٰ بِاللَّـهِ شَهِيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ ﴾ ” اللہ میرے اور تمہارے درمیان گواہ کافی ہے“ اور اس کی گواہی اس کے قول و فعل اور اقرار کے ذریعے سے ہوتی ہے۔ قول کے ذریعے سے اس کی شہادت یہ ہے کہ اس نے یہ قرآن مخلوق میں سب سے سچی ہستی پر نازل فرمایا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کو ثابت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو اپنی تائید سے نوازا اور آپ کو ایسی فتح و نصرت عطا کی جو آپ کی، آپ کے اصحاب اور آپ کے متبعین کی قدرت و اختیار سے باہر تھی۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فعل و تائید کے ذریعے سے شہادت ہے۔ اقرار کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی شہادت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو خبر دی کہ وہ اللہ کے رسول ہیں اور اس نے لوگوں کو حکم دیا ہے کہ وہ آپ کی اطاعت کریں۔ پس جو کوئی آپ کی اطاعت کرتا ہے اس کے لئے اللہ کی رضا مندی اور اس کی کرامت ہے اور جو کوئی آپ کی اطاعت نہیں کرتا تو اس کے لئے اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور جہنم ہے اور اس کا خون اور مال حلال ہے اور اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کے دعوے پر برقرار رکھتا ہے۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ پر کوئی جھوٹ باندھا ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس دنیا میں آپ کو عذاب دے دیتا۔ ﴿وَمَنْ عِندَهُ عِلْمُ الْكِتَابِ﴾ ” اور جس کو خبر ہے کتاب کی“ یہ آیت کریمہ اہل کتاب کے تمام اعمال کو شامل ہے۔ کیونکہ ان میں سے جو کوئی ایمان لا کر حق کی اتباع کرتا ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گواہی دیتا ہے اور نہایت صراحت سے آپ کے حق میں شہادت دیتا ہے اور ان میں سے جو کوئی گواہی کو چھپاتا ہے تو اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی خبر کہ اس کے پاس شہادت ہے، اس کی خبر سے زیادہ بلیغ ہے۔ اگر اس کے پاس شہادت نہ ہوتی، تو دلیل کے ساتھ اپنے طلب شہادت کو رد کردیتا۔ پس اس کو سکوت دلالت کرتا ہے کہ اس کے پاس رسول کے حق میں شہادت موجود ہے جو اس نے چھپا رکھی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اہل کتاب سے گواہی لینے کا حکم اس لئے دیا ہے کہ وہ گواہی دینے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ ہر معاملے میں صرف اسی شخص سے گواہی لی جانی چاہئے جو اس کا اہل ہو اور دوسروں کی نسبت اس بارے میں زیادہ علم رکھتا ہو۔ اس کے برعکس وہ لوگ جو اس معاملے میں بالکل اجنبی ہوں، مثلاً ان پڑھ مشرکین عرب وغیرہ، تو ان سے شہادت طلب کرنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ انہیں اسی معاملے کی کوئی خبر ہے نہ انہیں اس کی معرفت ہی حاصل ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔