سورة یوسف - آیت 88

فَلَمَّا دَخَلُوا عَلَيْهِ قَالُوا يَا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنَا وَأَهْلَنَا الضُّرُّ وَجِئْنَا بِبِضَاعَةٍ مُّزْجَاةٍ فَأَوْفِ لَنَا الْكَيْلَ وَتَصَدَّقْ عَلَيْنَا ۖ إِنَّ اللَّهَ يَجْزِي الْمُتَصَدِّقِينَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

پھر جب وہ اس کے پاس داخل ہوئے تو انھوں نے کہا اے عزیز! ہمیں اور ہمارے گھر والوں کو تکلیف پہنچی ہے اور ہم حقیر سی پونجی لے کر آئے ہیں، سو ہمارے لیے ماپ پورا دے دے اور ہم پر صدقہ کر۔ یقیناً اللہ صدقہ کرنے والوں کو جزا دیتا ہے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

پس وہ وہاں سے روانہ ہوگئے۔ ﴿ فَلَمَّا دَخَلُوا عَلَيْهِ﴾ ” جب وہ اس کے پاس گئے“ یعنی جب وہ یوسف علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ﴿قَالُوا﴾ تو انہوں نے عاجزی کے ساتھ عرض کیا : ﴿يَا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنَا وَأَهْلَنَا الضُّرُّ وَجِئْنَا بِبِضَاعَةٍ مُّزْجَاةٍ فَأَوْفِ لَنَا الْكَيْلَ وَتَصَدَّقْ عَلَيْنَا﴾ ” اے عزیز ! پڑی ہے ہم پر اور ہمارے گھر والوں پر سختی اور ہم ناقص پونجی لے کر آئے ہیں، سو ہمیں بھرتی پوری دیں اور ہم پر خیرات کریں“ یعنی ہم اور ہمارے اہل و عیال سخت محتاج ہوگئے ہیں۔ ﴿وَجِئْنَا بِبِضَاعَةٍ مُّزْجَاةٍ﴾ ” اور ہم تھوڑا سا سرمایہ لائے ہیں۔“ یعنی ہم ایسا مال لے کر آئے ہیں جو قلیل، بے وقعت ہونے کی بنا پر کسی اہمیت کا حامل نہیں۔ ﴿فَأَوْفِ لَنَا الْكَيْلَ ﴾ ” پس آپ ہمیں پورا غلہ دیجیے۔“ یعنی ہمارے پاس قیمت کم ہونے کے باوجود، ہمیں قیمت سے زیادہ غلہ عنایت کرکے ہم پر صدقہ کیجیے۔ ﴿ إِنَّ اللَّـهَ يَجْزِي الْمُتَصَدِّقِينَ﴾ ” بیشک اللہ صدقہ کرنے والوں کو ثواب دیتا ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ صدقہ کرنے والوں کو دنیا و آخرت کا ثواب عطا کرتا ہے۔