وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِي ۚ إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّي ۚ إِنَّ رَبِّي غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اور میں اپنے نفس کو بری نہیں کرتی، بے شک نفس تو برائی کا بہت حکم دینے والا ہے مگر جس پر میرا رب رحم کرے۔ بے شک میرا رب بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔
چونکہ اس کلام میں عورت کے اپنے لئے تزکیہ کے دعوے کا شائبہ پایا جاتا ہے اور یہ دعویٰ بھی پایا جاتا ہے کہ یوسف علیہ السلام کے معاملے میں اس سے کوئی گناہ سرزد نہیں ہوا۔ اس لئے عورت نے استدارک کے طور پر کہا : ﴿وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِي ﴾ ” اور میں اپنے تئیں پاک صاف نہیں کہتی۔“ یعنی میں نے یوسف علیہ السلام کو پھسلانے، اس کے ساتھ برائی کے ارادے اور اس کی شدید حرص اور اس کے بارے میں سازش کرنے میں اپنے آپ کو بری قرار نہیں دیتی۔ ﴿إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ ﴾ ” کیونکہ نفس امارہ )انسان کو( برائی ہی سکھاتا رہتا ہے۔“ یعنی نفس انسان کو بہت کثرت سے برائی، یعنی بے حیائی اور دیگر تمام گناہوں کا حکم دیتا ہے۔ نفس شیطان کی سواری ہے اور شیطان نفس کے راستے سے انسان میں داخل ہوتا ہے۔ ﴿إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّي ۚ ﴾ ” سوائے اس شخص کے جس پر میرا رب رحم کر دے“ اور اسے اس کے نفس امارہ سے نجات دے دے اور اس طرح اس کا نفس امارہ نفس مطمئنہ میں بدل جائے۔ ہلاکت کے داعی کی نافرمانی کرکے ہدایت کے داعی کی آواز پر لبیک کہے۔ اس میں نفس کا کوئی کمال نہیں، بلکہ یہ اللہ کا اپنے بندے پر بے انتہا فضل و کرم اور اس کی بے پایاں رحمت ہے۔ ﴿إِنَّ رَبِّي غَفُورٌ ﴾ ” بے شک میرا رب بخشنے والا“ جب کوئی گناہ اور معاصی کے ارتکاب کی جرات کرنے کے بعد توبہ کرکے اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹ آتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے بخش دیتا ہے۔ ﴿رَّحِيمٌ ﴾ ” رحم کرنے والا ہے۔“ اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرکے اور اسے نیک اعمال کی توفیق عطا کرکے اس پر رحم کرتا ہے۔ ان آیات کریمہ کی تفسیر میں قرین صواب یہی ہے کہ یہ عزیز مصر کی بیوی کا قول ہے یوسف علیہ السلام کا نہیں، کیونکہ یہ بات عورت کے کلام کے سیاق میں آئی ہے اور یوسف علیہ السلام تو اس وقت قید میں تھے۔