وَقَالَ الْمَلِكُ ائْتُونِي بِهِ ۖ فَلَمَّا جَاءَهُ الرَّسُولُ قَالَ ارْجِعْ إِلَىٰ رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ مَا بَالُ النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ ۚ إِنَّ رَبِّي بِكَيْدِهِنَّ عَلِيمٌ
اور بادشاہ نے کہا اسے میرے پاس لاؤ، تو جب قاصد اس کے پاس آیا تو اس نے کہا اپنے مالک کے پاس واپس جا، پھر اس سے پوچھ ان عورتوں کا کیا حال ہے جنھوں نے اپنے ہاتھ کاٹ ڈالے تھے، یقیناً میرا رب ان کے فریب کو خوب جاننے والا ہے۔
جب قاصد بادشاہ اور لوگوں کے پاس واپس پہنچا اور انہیں یوسف علیہ السلام کی تعبیر کے بارے میں آگاہ کیا تو انہیں تعبیر سن کر تعجب ہوا اور بے حد خوش ہوئے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿وَقَالَ الْمَلِكُ ﴾ ” بادشاہ نے (وہاں موجود لوگوں سے کہا) کہا“ ﴿ائْتُونِي بِهِ ﴾ ” اسے میرے پاس لاؤ۔“ یعنی یوسف علیہ السلام کو قید خانے سے نکال کر میرے سامنے حاضر کرو۔ ﴿فَلَمَّا جَاءَهُ الرَّسُولُ ﴾’’پس جب بادشاہ کا ایلچی جناب یوسف علیہ السلام کے پاس آیا“ اور اسے بادشاہ کے پاس حاضر ہونے کے لئے کہا، تو انہوں نے اس وقت تک قید خانے سے باہر آنے سے انکار کردیا جب تک کہ ان کی برأت مکمل طور پر لوگوں کے سامنے عیاں نہیں ہوجاتی۔ یہ چیز ان کے صبر، عقل اور اصابت پر دلالت کرتی ہے۔ ﴿قَالَ ﴾ اس وقت انہوں نے بادشاہ کے ایلچی سے کہا : ﴿ ارْجِعْ إِلَىٰ رَبِّكَ ﴾ ” بادشاہ کے پاس واپس جا“ ﴿فَاسْأَلْهُ مَا بَالُ النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ ۚ ﴾ ” بادشاہ سے پوچھ کہ ان عورتوں کا کیا قصہ ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لئے تھے۔“ کیونکہ ان کا معاملہ بالکل ظاہر اور واضح ہے ﴿إِنَّ رَبِّي بِكَيْدِهِنَّ عَلِيمٌ ﴾ ” میرا رب تو ان کا فریب، سب جانتا ہے۔ “